مون سون کی دلہنیں یا صوبہ سندھ کی روایات؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)مون سون کے آغاز سے ہی خبریں آنی شروع ہو چکی تھیں کہ کم عمر لڑکیوں کی پیسوں کے عوض زائد العمر مردوں سے شادیاں کرائی جا رہی ہیں۔ سنہ 2022 میں غیرمعمولی سیلاب کے بعد انسانی حقوق تنظیموں کی جانب سے خبردار کیا جا چکا تھا کہ موسمیاتی و معاشی عدم تحفظ کی وجہ سے اب ایسی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے بعض حصوں میں کم عمری کی شادیاں عام ہیں اور دنیا میں 18 سال کی عمر سے قبل شادی کرنے والی لڑکیوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان چھٹے نمبر پر ہے حالاں کہ پاکستان کے مختلف صوبوں میں شادی کی قانونی عمر 16 سے 18 برس کے درمیان ہے۔
’پرانے رسم و رواج صدیوں سے چلے آرہے ہیں‘
دادو سے تعلق رکھنے والے صحافی ممتاز جمالی کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں سندھ میں ہونے والی کم عمری کی شادیاں آج کا موضوع نہیں ہے اور نہ ہی سیلاب کے وقت ان میں اضافہ ہوتا ہے بس یوں سمجھ لیں کہ یہ پرانی روایات اور رسومات ہیں جو قبائلیوں میں عرصہ دراز سے چلی آرہی ہیں۔
’شادی کرادو طوفان اور بارش کی آمد آمد ہے‘
ممتاز جمالی کے مطابق جب بارشوں کا موسم آتا ہے تو ہمارے ہاں اب بھی جہاں جہاں تعلیم و شعور کی کمی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی بیٹیوں کی شادیاں طوفان یا سیلاب سے پہلے کردیں تا کہ کہیں ان کی بیٹیاں دربدر نہ ہو جائیں اور یہی کوشش لڑکے والوں کی بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو بھی رشتہ ازدواج میں جوڑ دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں یہ رسمیں پرانے وقتوں سے چلی آرہی ہیں تاہم اب اس میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
’یہاں تو نکاح تک رجسٹر نہیں ہوتا‘
ممتاز جمالی کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے ریاست کی جو ذمے داریاں ہیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بنیادی چیز نکاح کی رجسٹریشن ہے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شہروں میں نکاح کے وقت لڑکے لڑکی کی عمر دیکھی جاتی ہے جبکہ ہمارے علاقوں میں ایسا کچھ نہیں ہے، نکاح کے جو قانونی تقاضے ہیں وہ پورے نہیں کیے جاتے اور جب نکاح ہی درج نہیں ہو رہا تو کم عمری کی شادی رپورٹ کیسے ہوگی؟
’شادی کا خرچہ لڑکے والے ہی اٹھاتے ہیں‘
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی علی نعیم نے وی نیوز کو بتایا کہ سندھ کی اپنی ایک ثقافت ہے جس میں کم عمری میں لڑکی کا رشتہ مانگ لیا جاتا ہے اور مناسب وقت آنے پر شادی کرادی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ شادیاں زیادہ تر کم عمری میں ہوتی ہیں لیکن یہ سلسلہ آج کا نہیں بلکہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔
علی نعیم کا مزید کہنا تھا کہ مون سون سے جوڑی گئی کم عمری کی شادیوں کی خبروں میں ایک نشاندہی یہ بھی کی گئی ہے کہ لڑکے والے لڑکی والوں کو رقم دے کر لڑکی کو لے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھ کی روایت ہے کہ یہاں شادی کے اخراجات لڑکے والے اٹھاتے ہیں اور اس کا مون سون اور نہ ہی سیلاب سے کوئی تعلق ہے بلکہ یہ روایت بھی برسوں سے چلی آرہی ہے۔
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے ایک اور صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس حد تک بات درست ہو سکتی ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں اب کم عمر لڑکیوں کے پاس کھیتی باڑی کا کام نہیں رہا ہے تو والدین شادی کرادیتے ہیں لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان شادیوں کا تعلق بلوغت اور سندھ کی روایات سے ہے۔
صحافی نے کہا کہ یہ طے شدہ ایک اصول ہے کہ شادی کا خرچہ لڑکا اٹھائے گا وہ چاہے جس صورت میں بھی ہو اور رقم کتنی ادا کرنی ہے اس کا تعین دونوں گھرانے مل کر کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زندگی گزارنے کا طریقہ تبدیل ہوچکا ہے، جہاں مرد زمین داری میں مصروف رہا کرتے تھے وہیں ان کے شانہ بشانہ خواتین بھی مویشیوں کو پالتیں اور کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ اپنے گھریلو کام کاج میں مصروف رہتی تھیں لیکن یہ شادیاں تب بھی ایسے ہی ہوا کرتی تھیں لیکن اب کرنے کو کچھ نہیں تو کچھ علاقوں میں والدین یہ ذمے داری پوری کرنے میں جلدی کر جاتے ہیں۔
علی نعیم کے مطابق لڑکی والوں کو رقم ادائیگی کوئی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ شادیاں سادگی سے ہوتی ہیں اور 2 سے 3 لاکھ روپے میں ایک نئی ازدواجی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔
اس سوال پر کہ کیا مردوں کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ پوری دنیا میں ہوتا چلا آرہا ہے اور پاکستان میں بھی ہماری نظروں سے خبریں گزرتی ہیں کہ پولیس نے فلاں علاقے میں کم عمر بچی سے شادی کی کوشش ناکام بنا دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا ہی یہاں بھی ہوتا ہے لیکن اس حد تک نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا نوٹس
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دادو میں غربت کے باعث پیسو ں کی خاطر کم عمر بچیوں کی شادیوں کا نوٹس لے لیا ہے۔
مراد علی شاہ نے خان محمد ملاح گوٹھ میں45 لڑکیوں کی رقم کے عوض شادی پر رپورٹ بھی طلب کرلی ہے اور اس حوالے سے ہدایت کی ہے کہ کمشنر حیدرآباد ان تمام معاملات کی سماجی، معاشی اور قانونی وجوہات بتائیں اور کمیٹی بنا کر گوٹھ میں تفصیلی انکوائری کرکے رپورٹ دیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کمشنر حیدر آباد سے یہ بھی کہا کہ بتایا جائے کیا بیاہی گئی لڑکیاں سیلاب سے متاثرہ خاندانوں سے تھیں اور اگر ایسا ہے تو ان کی کتنی امداد کی گئی؟
انہوں نے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ بیاہی گئی لڑکیاں اس وقت کس حال میں ہیں اور ان معاملات کی ہرپہلو سے رپورٹ دی جائے تاکہ اس کا سدباب کیا جا سکے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کمشنر حیدرآباد کو انکوائری رپورٹ میں اپنی سفارشات دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔