سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر، دکاندار بھی ملکی ترقی کے لیے ٹیکس دیں، وفاقی وزیر خزانہ


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے دکانداروں، ریٹیلرز اور ہول سیلرز سے ٹیکس جمع کرانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت میں 43 فیصد شعبے صرف ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان شعبوں کا سب کو پتا ہے، تنخوا دار طبقہ اور مینوفیکچرنگ شعبہ اپنی گنجائش سے زیادہ ملکی ترقی میں کردار ادا کررہا ہے، اب حکومت کے پاس تنخواہ دار طبقے اور مینوفیکرنگ شعبے پر ٹیکس عائد کرنے کی مزید گنجائش نہیں رہی۔
وفاقی وزیر خزانہ نے ٹیلی وژن پر اہم گفتگو کرتے پوئے کہا کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا، ریٹیلرز، ہول سیلرز اور ڈیلرز سے گزارش ہے کہ قدم بڑھائیں اور ملکی ترقی میں کردار ادا کریں، معیشت کو بہتر کرنے کے لیے ان شعبوں سمیت سب کو مل کر کوشش کرنا ہوگی وگرنہ ملکی معیشت کی صورتحال مزید ابتر ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سے جس قدر ممکن ہوسکا دکانداروں کو سہولت فراہم کرے گی، حکومت دکانداروں کی تجاویز کا بغور جائزہ لے گی اور ان پر عملدرآمد بھی کیا جائے گا، ایف بی آر کی ویب سائٹ پر دستیاب فارم کو آسان کردیا گیا ہے، تاکہ دکاندار بھی ٹیکس دے کر قومی ترقی میں کردار ادا کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے دکانداروں سے ٹیکس نہ لیا تو وہ طبقات جو اس وقت نالاں ہیں، وہ اور مشکل میں چلے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چیریٹی پر نہیں بلکہ محصولات سے چلتے ہیں، دکانداروں، ریٹیلرز اور ہول سیلرز نے سے اپیل ہے کہ وہ اپنا ٹیکس جمع کرائیں۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کی کرنسی مستحکم ہورہی ہے، گزشتہ 6 ماہ سے جس سفر پر گامزن ہیں اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، جتنا ہمارا بیک لاگ تھا وہ کلیئر ہوچکا ہے، مہنگائی 38 فیصد تک چلی گئی تھی جو اب 9.6 فیصد پر آگئی ہے، مہنگائی سنگل ڈیجیٹ میں آنے سے پالیسی ریٹ بھی نیچے آرہا ہے، اس کے باعث صنعت اور دیگر شعبوں کا بہت فائدہ ہوگا۔
انہوں نے وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو مہنگائی میں کمی پر مبارکباد پیش کی اور امید ظاہر کی مہنگائی میں کمی کے ساتھ ساتھ پالیسی ریٹ اور شرح سود میں بھی کمی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جولائی میں ریکارڈ ریمیٹنس تھیں، ریٹنگ ایجنسیز فچ اور موڈیز نے پاکستانی کی ریٹنگ کو بڑھایا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ معیشت درست سمت میں جاچکی ہے، معاشی استحکام ایک ایسی بنیاد ہوتی ہے جس پر عمارت کھڑی ہوتی ہے، میکرواکنامک استحکام معاشی استحکام کی ہی بدولت ممکن ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی استحکام کا کوئی اور فارمولہ نہیں، ہم یہ پہلے کرکے دیکھ چکے ہیں، 4 فیصد سے اوپر جاتے ہی ہمیں مسائل کا سامنا ہونے لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب معاملات درست طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں، ابھی ہمیں طویل سفر طے کرنا ہے لیکن جو چیزیں ابھی درست سمت میں جارہی ہیں ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ میڈیا پر ایف بی آر کے محصولات سے متعلق بات کی گئی، ہم اس معاملے پر ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے کہ ہم نے اپنی محصولات کو بڑھانا ہے، گزشتہ برس ہم نے ٹیکس ریونیو میں 29 فیصد اضافہ کیا لیکن اس کے باوجود ہماری ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح ابھی بھی 8.8 فیصد ہے، یہ حقیقت ہے کہ ایف بی آر نے پریس ریلیز میں 98 ارب روپے کے شارٹ فال کا ذکر کیا، چیزوں کو روکنا یا سست کردینا آسان ہے، حکومت نے ایسا نہیں کیا، اس کے باوجود ایکسپورٹرز کو 132 ارب کی ادائیگیاں کی گئیں۔۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک اس شرح پر مستحکم نہیں ہوسکتا، ہم نے اس شرح کو 13 فیصد پر لے جانے کا فیصلہ کیا ہے، ہمیں اپنے اس فیصلے پر یقین رکھنا پڑے گا اور اس پر عملدرآمد بھی کرنا ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ رائٹ سائزنگ کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور وزیراعظم اس کے نگراں ہیں، حکومت واضح فیصلہ کرچکی ہے کہ وفاقی کابینہ کا سائز کم کیا جائے گا، اس کا ایک طریقہ کار ہے، 6 وزارتوں میں سے 2 ضم ہورہی ہیں، جس کے باعث گریڈ 17 سے 22 کے افسران میں کمی ہوگی، ہم تمام وزارتوں اور خودمختار اداروں کو سن رہے ہیں اور اس کے مطابق فیصلے کیے جارہے ہیں۔