آئینی پیکیج کسی بھی وقت آسکتا ہے، چاہتے ہیں فضل الرحمان کے ساتھ تعلقات بحال ہوں، خواجہ آصف
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ چیف جسٹس مدت ملازمت میں توسیع نہیں لینا چاہتے، آئینی پیکیج کسی بھی وقت آسکتا ہے، لیکن فی الحال ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہمارا پرانا تعلق ہے، چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ تعلقات بحال ہوں۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں ان تمام وجوہات کو ختم کرنا چاہیے جس کی وجہ سے بلوچستان میں مسائل پیدا ہوئے، اختر مینگل کے استعفے پر ہمیں ان کے تمام خدشات دور کرنے چاہییں۔
’بلوچستان کی بہتری کے لیے ہم نے کئی مواقع ضائع کردیے‘
وزیر دفاع نے کہاکہ بلوچستان کی بہتری کے لیے ہم نے کئی مواقع ضائع کردیے، ہمیں اختر مینگل سے بات کرنی چاہیے اور ان کے ذریعے کہلوایا جائے کہ ہم بلوچستان کے مسائل حل کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی محرومیوں کی وجہ سے وہاں ملک دشمن عناصر کو تقویت ملی، ایسے کئی ثبوت ہیں کہ پیسے لے لیے گئے مگر وہاں پر ترقیاتی کام نہیں ہوئے، بلوچستان میں ایک سڑک ہے جس کا 5 بار افتتاح ہوا۔
انہوں نے کہاکہ اگر محمود اچکزئی سیاسی جماعتوں سے بات کرتے ہیں تو ہم خوش آمدید کہیں گے، پی ٹی آئی کے معاملات قومی نوعیت کے نہیں۔
خواجہ آصف نے کہاکہ پی ٹی آئی کے معاملات ایک شخص کی ذات سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتے ہیں، اس وقت تحریک انصاف کے اندر 4 گروپ بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ نواز شریف اور شہباز شریف سمیت دیگر سیاستدان قومی ڈائیلاگ کا کئی بار کہہ چکے ہیں، اگر ہمارا محمود اچکزئی کے ساتھ کچھ باتوں پر اتفاق ہوجاتا ہے تو کیا عمران خان مانیں گے؟
’جنرل فیض حمید کی ساری کہانی کا کھرا عمران خان کی طرف جائے گا‘
خواجہ آصف نے کہاکہ جنرل فیض حمید کی ساری کہانی کا کھرا عمران خان کی طرف جائے گا، تاہم سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے وعدہ معاف گواہ بننے پر کوئی پیشگوئی نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان کو اندازہ ہے کہ کہیں قدموں کے نشان میری طرف نہ آجائیں، میں فیض حمید کو اتنا نہیں جانتا جتنا عمران خان جانتے ہیں۔
’اب معاملات زیادہ عرصہ معلق نہیں رہیں گے‘
وزیر دفاع نے کہاکہ معاملات اب زیادہ عرصہ معلق نہیں رہیں گے، یہ سب چند دنوں میں طے ہوجائیں گے، عمران خان روزانہ میڈیا سے بات کرتے تھے، ہمیں تو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔
انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک پیج پر ہوں، پہلے سیاسی جماعتیں قومی ایجنڈا سامنے لائیں۔