فلم ’دی گوٹ لائف‘: ایک مسلمان نوجوان کی کہانی یا ہندوتوا نظریے کی عکاسی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)رواں برس مارچ میں انڈین ملیالم فلم ’دی گوٹ لائف‘ ریلیز ہوئی جس نے انڈین باکس آفس پر کافی بزنس کیا۔ فلموں کی ریٹنگ کے پلیٹ فارم آئی ایم ڈی بی پر اس فلم کی ریٹنگ 7.1 ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار ملیالم فلم انڈسٹری کے سینیئر ڈائریکٹر بلیسی ہیں جنہوں نے امریکی فلمساز اسٹیون ایڈمز کے ساتھ مل کر اس فلم کو پروڈیوس بھی کیا ہے۔
اس فلم کی پروڈکشن میں بھارتی اور امریکی کمپنیوں کی مشترکہ سرمایہ کاری شامل ہے۔ اس فلم کی شوٹنگ کیرالہ کے علاوہ الجیریا، اردن اور عمان کے صحراؤں میں کی گئی ہے۔ فلم ’دی گوٹ لائف‘ کی کہانی معروف ملیالم مصنف بنیامین (بینی ڈینیئل) کے ناول ’آدوجیوتھم‘ سے ماخوذ ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ناول مکمل طور پر حقیقی واقعات پر مبنی ہے جس میں ایک ایسے ملیالم مسلم نوجوان کی کہانی دکھائی گئی جو ایک اچھے اور باعزت روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جاتا ہے۔
دی گوٹ لائف‘کا مرکزی کردار ایک عام بھارتی مسلم نوجوان ہے۔ پوری فلم کی کہانی اسی نوجوان کے گرد گھومتی ہے۔ گو کہ اس فلم میں ایک بھارتی مسلمان کو دہشتگرد کے روپ میں نہیں دکھایا گیا لیکن اس کے باوجود اس فلم میں نہایت ’عمدگی اور چالاکی‘ سے ہندوتوا نظریے کی عکاسی اور ہندو انتہا پسندوں کے جذبات کی تسکین کی گئی ہے۔ اس فلم کے بھارت میں ہٹ ہونے کی غالباً یہی ایک وجہ ہے۔
فلم میں ایسا کیا ہے؟
’دی گوٹ لائف‘ میں بھارتی ریاست کیرالہ کے ایک ان پڑھ اور دیہاتی نوجوان نجیب کی کہانی دکھائی گئی ہے، جو اپنی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر اپنے دوست حکیم کے ساتھ اچھے روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جاتا ہے۔ یہ دونوں بھارتی مسلمان نوجوان عربی یا انگریزی زبان میں بات نہیں کرسکتے اور ایک مقامی شخص کو اپنی کمپنی کا نمائندہ سمجھ کر اس کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔ لیکن ان دونوں کے پیروں تلے سے زمین اس وقت نکلتی ہے جب وہ شخص انہیں دور دراز صحرا میں لے جاکر الگ کردیتا ہے اور بلامعاوضہ بکریاں چرانے پر مجبور کردیتا ہے۔
فلم میں نجیب کی زندگی کو مرکوز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ وہ سعودی شخص نجیب کے ساتھ آئے روز انسانیت سوز سلوک کرتا ہے، اسے زندہ رہنے کے لیے انتہائی کم خوراک دی جاتی ہے، ذہنی و جسمانی تشدد کے باعث وہ سوکھ کر کانٹا ہوجاتا ہے اور وہ خود کو بھی بکریوں کے ریوڑ کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ اسی طرح ساڑھے 3 برس گزر جاتے ہیں، اس دوران اس کی حکیم سے ایک دو ملاقاتیں بھی ہوجاتی ہیں۔ ایک روز جب اس کا مالک اپنی بیٹی کی شادی کے لیے کیمپ سے چلا جاتا ہے تو وہ اپنے دوست اور ایک سیاہ فام عرب ملازم کے ساتھ کیمپ سے فرار ہوجاتا ہے۔ وہ کئی روز صحرا میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ حکیم گرمی اور پیاس کی شدت سے مر جاتا ہے اور سیاہ فام عرب کہیں غائب ہوجاتا ہے۔ نجیب اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور مرکزی شاہراہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، جہاں سے اسے ایک خدا ترس عرب اپنے ساتھ شہر لے آتا ہے۔
شہر میں نجیب کو کیرالہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملتا ہے جو اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ نجیب کمزوری اور نقاہت کے باعث کئی دن تک بستر سے اٹھ نہیں پاتا۔ بعدازاں پولیس اسے گرفتار کرلیتی ہے اور اسے غیرقانونی تارکین وطن کے حراستی مرکز میں بند کردیا جاتا ہے۔ کچھ دن بعد اس مرکز میں سعودی کفیل آتے ہیں اور اپنے مفرور ملازمین کو اپنے ساتھ واپس لے جاتے ہیں۔ انہی میں نجیب کا کفیل بھی شامل ہوتا ہے جو اسے پہچان لیتا ہے لیکن وہ قانونی طور پر اسے اپنے ساتھ لے کر نہیں جاسکتا کیونکہ نجیب قانونی طور پر اس کا ملازم ہی نہیں ہوتا۔ بالآخر کچھ دن بعد نجیب کو بھارت ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے اور وہ واپس اپنے گاؤں پہنچ جاتا ہے۔
حقیقت کیا ہے؟
بھارتی نوجوان نجیب کو سعودی عرب کے دور دراز صحرا میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، فلم میں بیان کردہ کہانی یہاں تک بالکل سچ ہے۔ تاہم، اس کے بعد ناول کے مصنف، فلمسازوں اور ڈائریکٹر نے فلم کو ایک ’دلچسپ‘ موڑ دیا اور اس میں نجیب کی بے چارگی اور واپس اپنی بیوی کے پاس لوٹنے کی جدوجہد کو ایکشن اور تھرل میں لپیٹ کر فلم بینوں کے سامنے پیش کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ نجیب کو کیمپ سے فرار ہوتے ہوئے اپنے کفیل خلیل کو قتل کرنے کے سبب گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں خون بہا دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن نجیب کے پاس خون بہا دینے کے لیے رقم نہیں تھی۔ تاہم، خلیل کے بیٹوں نے رقم جمع کرکے نجیب کی طرف سے ادا کردی تھی۔اس فلم میں کہانی کا صرف ایک رخ پیش کیا گیا، جسے میڈیا کی اصطلاح میں ’فریمنگ‘ کہا جاتا ہے۔ بھارتی فلمسازوں اور ڈائریکٹر نے اسی فریمنگ کو مسلمانوں اور سعودی عرب کے خلاف استعمال کیا ہے۔ بھارتی ہندوتوا فلم انڈسٹری نے مسلمانوں پر یہ حملہ ایک ایسے حساس وقت میں کیا ہے جب سعودی عرب 2034 کے فیفا ورلڈ کپ سمیت اہم عالمی ایونٹس کی میزبانی کرنے کی تیاری کررہا ہے۔
مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں انڈین فلم انڈسٹری باقاعدگی سے ہندوتوا نظریہ کو فروغ دے رہی ہے اور ساتھ میں اپنی جیبیں بھی بھر رہی ہے۔ اس فلم انڈسٹری کو معلوم ہے کہ کیسے مسلم مخالف فلمیں بنا کر بھارت میں مقبولیت اور پیسہ بٹورا جاسکتا ہے، جہاں مسلمانوں کو عرب ممالک سے آئے ان حملہ آوروں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال تک حکمرانی کی۔ اب انہی فلموں کے ذریعے ہندوتوا نظریے کا پرچار کیا جارہا ہے اور ہندوؤں میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی آگ بھڑکائی جارہی ہے۔ بھارتی فلموں میں کئی دہائیوں سے بھارت اور پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو منفی انداز میں پیش کیا جارہا ہے، لیکن اب ہندوتوا نظریات کے شعلے عرب کے مسلمانوں تک جاپہنچے ہیں۔