آئینی ترمیم میں ووٹ دینے والے منحرف ارکان کون سے ہیں، ان کا کیا مستقبل ہوگا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)گزشتہ روز قومی اسمبلی اور سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرلی ہے۔ اس منظوری کے لیے حکومت کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی جس کے لیے حکمران اتحاد کے پاس نمبرز پورے نہیں تھے اور جمعیت علمائے اسلام کی حمایت کے باوجود سینیٹ میں 2 اراکین اور قومی اسمبلی میں 5 اراکین کی سامنا تھا۔
قومی اسمبلی میں 224 جبکہ سینیٹ میں 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری تھی تاہم گزشتہ روز قومی اسمبلی میں 225 جبکہ سینیٹ میں 65 اراکین نے حمایت کی۔
آئینی ترمیم کے لیے حکومت نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کو تو منا لیا لیکن اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو منانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ سینیٹ میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل گروپ کے 2 ارکان نے اپنی جماعت سے منحرف ہوکر آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ان میں نسیمہ احسان اور قاسم خان شامل ہیں۔ پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے اپنے دونوں سینیٹرز کے مبینہ طور پر اغوا ہونے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ روز سینیٹ اجلاس میں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر دونوں اراکین کو آج اپنا استعفیٰ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکمران اتحاد کو جمعیت علمائے اسلام کے اراکین کے علاوہ اپوزیشن سے مزید 5 اراکین کی حمایت درکار تھی۔ اس موقع پر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے 5 آزاد اراکین اور ق لیگ کے ایک رکن اسمبلی نے اپنی جماعت سے منحرف ہو کر آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، ان 5 اراکین میں ظہور قریشی، عثمان علی، اورنگزیب کھچی، مبارک زیب اور تحریک انصاف کی حمایت سے کامیاب ہو کر ق لیگ میں شامل ہونے والے الیاس چوہدری شامل ہیں۔
قومی اسمبلی کے منحرف اراکین
آئینی ترمیم کے لیے ووٹ دینے والے 6 اراکین قومی اسمبلی عام انتخابات میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے جب کہ ان اراکین کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی۔ عثمان علی نے عام انتخابات میں این اے 142 ساہیوال 2 سے پی ٹی آئی کی حمایت سے آزاد حیثیت میں حصہ لیا اور ایک لاکھ 7 ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے۔ ظہور قریشی نے عام انتخابات میں این اے 146 خانیوال 3 سے آزاد حیثیت میں حصہ لیا تھا اور ایک لاکھ 12 ہزار ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے۔ اس الیکشن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عمران شاہ تھے جنہوں نے 15 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ کامیابی کے بعد ظہور قریشی نے 12 فروری 2024 کو مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اورنگزیب خان کھچی نے عام انتخابات میں این اے 159 وہاڑی 4 سے پی ٹی آئی کی حمایت سے آزاد حیثیت میں حصہ لیا اور ایک لاکھ 16 ہزار ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے۔
آئینی ترمیم میں منحرف ہو کر ووٹ دینے والے مبارک زیب نے ضمنی انتخابات میں این اے 8 باجوڑ سے آزاد حیثیت میں حصہ لیا اور 47 ہزار ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے اور سنی اتحاد کونسل کے امیدوار کو شکست دی تھی۔ بعد ازاں مبارک زیب نے 12 مئی 2024 کو پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ الیاس چوہدری نے عام انتخابات میں این اے 62 گجرات 1 سے پی ٹی آئی کی حمایت سے آزاد حیثیت میں حصہ لیا اور 97 ہزار ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے، بعد ازاں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
سینیٹ میں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے 2اراکین نے اپنی جماعت سے منحرف ہو کر آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ان میں نسیمہ احسان اور قاسم خان شامل ہیں۔ سینیٹ ریکارڈ کے مطابق نسیمہ احسان آزاد سینیٹر ہیں۔ وہ مارچ 2021 سے مارچ 2027 تک سینیٹر منتخب ہوئی تھیں۔ محمد قاسم خان کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہ بی این پی کے سینیٹر ہیں۔ محمد قاسم خان بھی مارچ 2021 سے مارچ 2027 تک سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔
منحرف ارکان کے حوالے سے سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق پہلے 17 مئی 2022 کو سنائے گئے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ کسی بھی جماعت کے منحرف رکن کا پارٹی پالیسی کے خلاف دیا گیا ووٹ گنتی میں شمار نہیں ہوگا اور نا اہل قرار دیا جائے گا تاہم 3 اکتوبر 2024 کو اس فیصلے کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ منحرف رکن اسمبلی کا ووٹ گنتی میں شمار ہوگا تاہم اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے گی۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے پی ٹی آئی اراکین چونکہ الیکشن کمیشن ریکارڈ کے مطابق آزاد رکن ہیں اس لیے ان پر انحراف کی شق کا اطلاق نہیں ہوتا اور ان کی رکنیت کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اراکین اب بھی آزاد ہیں اور ان کو حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں ووٹ دیں۔ اس کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ق کے رکن اسمبلی چوہدری الیاس جو پہلے آزاد حیثیت میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور جنہوں نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ہے ان پر بھی انحراف کی شق کا اطلاق اس لیے نہیں ہوتا کہ پاکستان مسلم لیگ ق نے بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ انحراف کی شق کا اطلاق صرف بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے ان 2 سینیٹرز پر ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ہے، اب جیسا کہ بی این پی سربراہ اختر مینگل نے ان 2 سینیٹرز سے استعفیٰ طلب کر لیا ہے تو اب پارٹی چیئرمین ان اراکین کے خلاف ریفرنس چیئرمین سینیٹ کو بھیجے گا جس کے بعد الیکشن کمیشن ان ارکان کی رکنیت ختم کر دے گا۔
ماہر قانون عمران شفیق ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کے فیصلے کے تحت دیکھا جائے تو یہ آزاد ارکان پی ٹی آئی کے ہیں۔ چونکہ فیصلہ پر عملدرآمد نہیں ہوا تو شاید وہ ’شک کا فائدہ‘ حاصل کر لیں اور ان اراکین کی رکنیت ختم نہ کی جائے گی۔ دوسری جانب جو 2 سینیٹرز ہیں وہ تو اختر مینگل کی پارٹی کے ہیں، ان کا معاملہ تو واضح ہے کہ اگر اختر مینگل بطور پارٹی سربراہ ان کے خلاف ریفرنس بنا کر بھیج دیں تو وہ نااہل ہو جائیں گے۔ اور اگر وہ ریفرنس نہیں بھیجتے تو وہ نا اہل نہیں ہوں گے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے وی نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے آزاد اراکین سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب پی ٹی آئی کے رکن ہیں۔ اگر پارٹی سربراہ ان اراکین کے خلاف ریفرنس اسپیکر کے پاس دائرکرتا ہے تو آرٹیکل 63 اے کی روح میں الیکشن کمیشن ان اراکین کی رکنیت ختم کرسکتا ہے۔