مغوی طالبعلم کی عدم بازیابی اور بلوچستان حکومت کی بے حسی

شہر میں نصب 830 کیمروں میں سے 630 خراب ہیں‘ پولیس کی جانب سے ہائی کورٹ میںاعتراف


کوئٹہ(قدرت روزنامہ) صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں طالبعلم منصور کے اغوا کو چار دن گزر چکے ہیں، لیکن بلوچستان حکومت کی بے حسی اور ناکامی عوام کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ اغوا کے خلاف بلوچستان اسمبلی چوک پر دھرنا مسلسل جاری ہے، جس میں تاجر تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے نمائندگان نے بھی شرکت کی ہے۔
چار دن گزر جانے کے باوجود بلوچستان حکومت کی جانب سے دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات شروع نہیں کیے گئے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان یا ان کے کابینہ کے کسی وزیر نے نہ تو مغوی طالبعلم کی بازیابی کے حوالے سے کوئی بیان جاری کیا اور نہ ہی دھرنے کے شرکاء سے اظہارِ یکجہتی کے لیے گئے۔ اطلاعات کے مطابق، وزیراعلیٰ دھرنے کے باعث آمد و رفت کے لیے متبادل راستوں کا استعمال کر رہے ہیں لیکن انہوں نے دھرنے کے مقام پر جانے کی زحمت تک نہیں کی۔
کوئٹہ میں اربوں روپے کے اخراجات کے باوجود سیف سٹی پروجیکٹ مکمل طور پر غیر فعال ہے۔ ہائی کورٹ میں پولیس کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ شہر میں نصب 830 کیمروں میں سے 630 خراب ہیں۔ اگر یہ پروجیکٹ فعال ہوتا تو مغوی طالبعلم کے اغوا کاروں کو ٹریس کرنا ممکن ہوتا۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ایک طالبعلم کو اسکول وین سے اغوا کیا گیا، جو کہ حکومتی ناکامی کی واضح مثال ہے۔
طالبعلم کے اغوا کے خلاف آج کوئٹہ میں مکمل ہڑتال کی گئی، جس کے دوران تمام بازار اور تجارتی مراکز بند رہے۔ عوامی احتجاج اور غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے لیکن حکومت کے رویے میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔
عوام کا سوال ہے کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سیف سٹی پروجیکٹ کی عدم فعالیت پر کارروائی کون کرے گا؟ مغوی طالبعلم کی بازیابی کے لیے حکومت کب سنجیدہ اقدامات کرے گی؟ اور کیا یہ واقعہ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوگا؟
بلوچستان کے عوام اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، لیکن حکومت کی خاموشی مزید سوالات کو جنم دے رہی ہے۔