بی بی سی، دیگر غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹنگ کے بعد اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ ڈی چوک میں گولی چلی
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے لوگ زخمی یا جاں بحق ہوئے؟ تحریک انصاف کی یہ نااہلی ہے کہ اب تک وہ جامع حقائق کے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی نہیں کر سکے، سابق سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر کا ردعمل
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) مصطفٰی نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ بی بی سی، دیگر غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹنگ کے بعد اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ ڈی چوک میں گولی چلی۔ تفصیلات کے مطابق 26 نومبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں پی ٹی آئی کیخلاف ہوئے کریک ڈاون سے متعلق اپنے ردعمل میں سابق سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ بی بی سی اور دیگر غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹنگ کے بعد اب اس بات میں تو کوئی ابہام نہیں کہ ڈی چوک میں گولی چلی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے لوگ زخمی یا جاں بحق ہوئے؟ تحریک انصاف کی یہ نااہلی ہے کہ اب تک وہ جامع حقائق کے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی نہیں کر سکے۔ ہر لیڈر الگ الگ بولی بول رہا ہے۔ جماعت کا یہ کام تھا کہ ایک ایک ورکر جو زخمی ہوا یا جاں بحق ہوا، مکمل ریکارڈ کے ساتھ تفصیلات قوم اور میڈیا کے سامنے رکھتی۔
لیکن یہاں پر تو قائدین ورکروں کو آگ میں جھونک کر عہدے بچانے اور حاصل کرنے کے جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی ترجمان نے 12 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان وقاص اکرم شیخ نے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے احتجاجوں کی تاریخ میں اس قسم کا رویہ نہیں دیکھا۔ اس وقت قوم اور ہر بچہ دکھ اور تکلیف محسوس کررہا ہے۔ پرامن مظاہرین پر تشدد کیا گیا اور حکومت شواہد چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہلاکتیں رپورٹ کرنے والوں کو جیل میں ڈالا گیا۔ بہت سے لوگ تاحال لاپتا ہیں اور ہمیں کچھ پتا نہیں۔ کچھ تعداد پولیس دے رہی ہے جب کہ کچھ گرفتار افراد کا ڈیٹا ہم نے اکٹھا کیا ہے۔وقاص اکرم شیخ نے کہا کہ 12 افراد دھرنے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ تعداد زیادہ ہے مگر ہم کنفرم میڈیا کے ساتھ شیئر کررہے ہیں۔ یہ ہمیں میت تک نہیں دے رہے تھے، ورثا کو میت 3 دن بعد دی گئی۔
حکومت شواہد اور میتیں چھپانے کی کوشش کررہی ہے مگر یہ چیزیں چھپ نہیں سکتیں۔پریس کانفرنس میں وقاص اکرم شیخ نے کہا کہ حکومت نام اور ثبوت مانگ رہی ہے۔ اسپتالوں پر دباؤ ڈالا گیا کہ لسٹ میڈیا کے ساتھ شیئر نہ کی جائے۔نہتے لوگوں پر گولیاں چلانے کی اجازت کون سا قانون دیتا ہی ۔ کس حکومت نے پرامن شہریوں پر گولیاں چلائی ہیں ۔ ریاستی مشینری کو اپنے لوگوں کے خلاف کیسے استعمال کیا جا سکتا ہی ۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج اتنا بڑا گناہ تو نہیں ہے۔ اس کا حق تو آئین دیتا ہے۔ ہمارے کارکن آنسو گیس، ربڑ گولیوں کے لیے تیار تھے، مگر اصل گولیوں کے لیے نہیں۔ جنگ میں تو فوجیوں کو بھی گولیوں سے جان بچانے کی اجازت ہے۔وقاص اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، ریاست نے اپنے عوام کے ساتھ کیا کیا ۔ وزرا کہتے ہیں ایک بھی گولی نہیں چلی تو یہ کس نے چلائی ہیں ۔
ریاست کے صبر کا پیمانہ کیسے لبریز ہوا ۔ اس طرح سے تو نفرتیں مزید بڑھیں گی۔ خود حکومتی وزرا کی باتوں میں بہت تضاد ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے بانی چیئرمین کی بیوی کو بچایا ہے تاکہ کل کوئی انہیں پختون ہونے کا طعنہ نہ دے۔ وزیراعلیٰ کی ذمے داری تھی کہ وہ خاتون کی حفاظت کرے، اس لیے وہاں سے واپس آئے۔وزیراعلیٰ کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی، ان کی گاڑی کو ہٹ کیا گیا۔ روکنے کی کوشش کی گئی لیکن سی ایم کی گاڑی کے پی کے میں رکی۔