ڈی چوک واقعہ؛ ایف آئی آر تاخیر سے درج کرنے سے کیس کمزور ہوگا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران 26 نومبر کو ڈی چوک میں ہونے والی ہلاکتوں کو 10 روز گزر گئے لیکن پی ٹی آئی کی قیادت کے جانب سے تاحال اس معاملے پر ایف آئی آر درج کرانے کے لیے کوئی درخواست دائر نہیں کی۔
پاکستان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ اس احتجاج کے دوران پی ٹی آئی کے 12 کارکنان جاں بحق ہوئے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے کی ایف آئی آر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی کے خلاف درج کرانے کی ہدایت کی ہے۔ پی ٹی آئی نے اس معاملے پر لطیف کھوسہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی ہے لیکن تاحال کوئی درخواست کسی فورم پر دائر نہیں کی گئی۔
’ایف آئی آر میں تاخیر کا مطلب ہے پی ٹی آئی کے موقف میں جان نہیں ہے ‘
سینئیر قانون دان عمران شفیق کے مطابق فوجداری مقدمات میں اگر ایف آئی آر درج کروانے میں تاخیر سے کام لیا جائے تو تصور کیا جاتا ہے کہ یہ ایف آئی آر جان بوجھ کر یا پھر سوچ بچار کرنے کے بعد دائر کی گئی ہے۔ فوجداری مقدمات میں بنیادی طور پر اصول ہے کہ جیسے ہی واقعہ ہوتا ہے تو فوری طور پر ایف آئی آر درج کی جائے۔
عمران شفیق کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت اگر درخواست دے دیں اور حکومت پرچہ درج نہیں کرتی تو ایسی صورت میں عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ عدالت کے حکم کے بعد ایف آئی آر درج ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو ایف آئی آر درج کروانے کے لیے عدالت ہی جانا ہوگا کیونکہ اس میں حکومت اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائی کرانے کی درخواست ہوگی اور حکومت یہ ایف آئی آر درج نہیں کرنے دے گی۔ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کو عدالت ہی جانا ہوگا لیکن عدالت جانے سے پہلے متعلقہ تھانے میں درخواست یا ایس پی کو کوئی درخواست یا آئی ئی جی کو کوئی درخواست تو دینی ہوگی۔
عمران شفیق کے مطابق ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دینے میں جتنی تاخیر ہوگی، اس کا نقصان ہوگا اور اس سے ثابت ہوگا کہ پی ٹی آئی کے موقف میں جان نہیں ہے۔
بیرسٹر سعد رسول کے مطابق کسی وقوعہ کے ایف آئی آر کی درخواست بیس سے چالیس منٹ تک ہوتا ہے۔ کئی ایسے مقدمات ہیں جن میں ایف آئی آر 10 گھنٹے بعد ہوئی اور اسی بنیاد پر ملزمان کو رہائی ملی کہ ایف آئی آر میں تاخیر کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ایف آئی آر کی درخواست میں تاخیر ہوتی ہے تو قانون اس کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ اگر سچ بول رہے ہوتے تو فوری بولتے، سوچنے کا وقت لینے کی ضرورت نہ ہوتی، وقت لینے کا مقصد شواہد بنانا یا کوئی گواہ اکٹھا کرنا ہو سکتا ہے۔
کیا پی ٹی آئی یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے جاسکتی ہے؟
بیرسٹر سعد رسول کے مطابق انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں انفرادی نوعیت کے کیسز نہیں سنے جاتے۔ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے مطابق انفرادی نوعیت کے کیسز ملک کے رائج قوانین کے مطابق اور پلیٹ فارمز پر سنے جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں یا تو کوئی ریاست دوسری ریاست کے خلاف جاتی ہے یا پھر کوئی گروہ جاتا ہے۔ کوئی نظریاتی، سیاسی یا پھر نسلی گروپ بین القوامی عدالت سے رجوع کرے اور موقف اپنائے کہ ہمارے خلاف جینوا کنونشن کے معاہدوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔
بیرسٹر سعد رسول کے مطابق اگر انفرادی طور پر کوئی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں جائے گا تو اس کی شنوائی نہیں ہوگی لیکن پی ٹی آئی اگر بطور جماعت جاتی ہے تو پھر ان کا کیس وہاں سنا جاسکتا ہے۔