یو اے ای ویزا: جنوری 2025 میں پاکستانیوں کو خوشخبری ملنے کا امکان ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانی اور انسانی وسائل کی ترقی کے حالیہ اجلاس میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی غیررسمی ویزا پابندیوں خصوصاً ورک ویزا کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
اس اجلاس کے دوران وزارت برائے اوورسیز پاکستانیز کے سیکریٹری نے سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ پاکستانیوں کو ویزے ملنے پر ’مکمل پابندی‘ نہیں ہے اور نہ ہی ہنرمند افراد کو ویزوں کے حصول میں پریشانیوں کا سامنا ہے۔
سیکریٹری وزارت اوورسیز پاکستانی اور انسانی وسائل نے وضاحت دی کہ پاکستانیوں کے لیے دبئی کے ویزوں پر کوئی پابندیاں نہیں ہیں، ویزوں سے متعلق ہر ملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی پروفیشنلز پر کوئی پابندیاں نہیں ہیں اور حالیہ دنوں میں غیرہنرمند ورکرز کی مانگ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں زیادہ ماہر اور ہنرمند ورکرز کو بیرون ملک بھیجنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
کیا واقعی یو اے ای کے ویزا پر عائد غیررسمی پابندیاں ختم ہورہی ہیں؟
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد عدنان پراچہ نے وی نیوز کو بتایا کہ یو اے ای کے ویزا پر عائد غیررسمی پابندیاں اب ختم ہوچکی ہیں، لیکن اس کے باوجود پاکستانیوں کے لیے یو اے ای کا ویزا حاصل کرنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے ایمپلائمنٹ ویزا پر کوئی پابندی نہیں ہے، نیم سرکاری کمپنیوں کے ویزے مل رہے ہیں، تاہم جو کمپنیاں یو اے ای کی وزارت کے ماتحت ہیں، ان کے ویزوں میں مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کررہی ہے جس کے فی الحال کوئی نتیجہ خیز ثمرات نظر نہیں آئے۔
عدنان پراچہ نے مزید کہا کہ یو اے ای کے ویزا میں مسائل کی وجہ کچھ پاکستانی بھکاری ہیں اور ایک وجہ وہاں موجود پاکستانیوں کی جانب سے سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہے، ہر ملک کے اپنے قوانین ہوتے ہیں اور انہی قوانین کے مطابق ہی رہنا ہوتا ہے لیکن ان چند پاکستانیوں کی وجہ سے باقی سب مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ یو اے ای آنے کے خواہشمند افراد کو ویزا دینے سے قبل ان کی سوشل میڈیا پر سرگرمیاں یا ڈیجٹل فٹ پرنٹ چیک کیا جاتا ہے۔
عدنان پراچہ نے مزید بتایا کہ یو اے ای کے ویزا نہ ملنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ 2023 میں ایمپلائمنٹ ویزا پر تقریباً 2 لاکھ 29 ہزار لوگ یو اے ای گئے تھے، اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد وزٹ ویزا اور ’جاب سیکر‘ ویزا پر جانے والے افراد کی بھی تھی، جب ان پاکستانیوں کو وہاں نوکری مل گئی تو انہوں نے بھی اپنا وزٹ یا جاب سیکر ویزا امپلائمنٹ ویزا میں تبدیل کروا لیا، یوں 2023 میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو یو اے ای کا ایمپلائمنٹ ویزا حاصل ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یو اے ای نے باقی ممالک کی بھی ورک فورس کی تعداد مساوی کرنے کی وجہ سے پاکستانیوں کے ویزا میں غیررسمی پابندیاں عائد کی ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 2024 میں ایمپلائمنٹ ویزا پر جانے والے افراد کی تعداد 75 ہزار تک ہوگی جو کہ 2023 کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
یو اے ای کے ویزا سے متعلق مشکلات کب کم ہوں گی؟
عدنان پراچہ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ 2025 پاکستانیوں کے لیے یو اے ای کے ویزا کے حوالے سے خوشخبری لے کر آئے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’مجھے یقین ہے کہ جب 2025 میں یو اے ای کی نئی ویزا پالیسی آئے گی تو اس میں متحدہ عرب امارات کی حکومت پاکستانیوں کے ویزا کے حوالے سے کوئی بہتر فیصلہ کرے گی‘۔
ٹریول ایجنٹ جنید یوسف نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یو اے ای کے ویزوں پر فی الحال پابندی نہیں لیکن اس کے باوجود 90 فیصد ویزے مسترد ہورہے ہیں کیونکہ یو اے ای کی جانب سے ویزے جاری کرنے کی اوسط کم کردی گئی ہے، اس وقت صرف ان لوگوں کے ویزے جاری ہورہے ہیں جن کی ہوٹل اور ریٹرن ٹکٹ بک ہوئی ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ دبئی یا مجموعی طور پر یو اے ای کے وزٹ ویزا کو محدود کر دینے کے پیچھے وجہ یہی ہے کہ پاکستانی وہاں وزٹ ویزا پر جاتے ہیں اور طے شدہ مدت سے زیادہ وہاں رہنا شروع کردیتے ہیں اور ایسے بیشتر افراد کی عمر 30 برس سے کم ہوتی۔
انہوں نے کہا، ’میرے تجربے کے مطابق، ایسے لوگوں کے ویزے زیادہ مسترد ہورہے ہیں کیونکہ یو اے ای میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 30 سال سے کم عمر افراد ویزا ختم ہونے کے باوجود بھی پاکستان واپس نہیں آتے‘۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ٹریول ایجنٹ محمد فرہاد نے وی نیوز کو بتایا کہ ویزوں پر بظاہر کوئی پابندیاں نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستانیوں کے یو اے ای کے ویزے نہیں لگ رہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت انفرادی ویزا ملنا سب سے زیادہ مشکل ہے، فیملی ویزے تو پھر بھی مل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پارٹنر یا فیملی کے ساتھ جانے والے فرد کے لیے ویزے کی مدت سے زیادہ وقت گزارنا آسان نہیں ہوتا، ایسے افراد ویزے کی مدت ختم ہوتے ہی واپس آ جاتے ہیں جبکہ انفرادی طور پر جانے والا شخص وہاں ویزا کی مدت سے زیادہ وقت گزار سکتا ہے اور اپنا گزارا کرسکتا ہے‘۔
محمد فرہاد نے کہا کہ پاکستانیوں کی یہ عادات ہی پاکستانیوں کو مشکلات میں ڈالتی ہیں۔ پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہاں کے قوانین کے مطابق چلیں تاکہ ان کے لیے ویزوں کے حصول میں مشکلات پیدا نہ ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *