نان کسٹم پیڈ اشیا کے نام پر شہری لٹنے لگے، اس سے بچا کیسے جائے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں کسٹم فیس کی عدم ادئیگی کے باعث اشیا کی قیمتیں بہت کم ہوتی ہیں اس کی وجہ ان اشیا کا غیر قانونی طریقے سے آنا ہوتا ہے اور جس وجہ سے ان پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اور اسے غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے مہنگی الیکٹرانک مصنوعات یا جدید امپورٹڈ گاڑیوں کو سستے داموں خریدنے کے چکر میں شہری غیر قانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں جیسے کہ نان کسٹم پیڈ اشیا جن کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔
ان اشیا کی اصل حقیقت تو ممکن ہے بارڈرز کے علاقوں پر آشکار ہو سکے لیکن ڈیمانڈ کے مدنظر فراڈیوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے جیسا کہ فیس بک پر گاڑیوں یا دیگر مہنگے اشیا موبائل فونز وغیرہ کی تصاویر یا ویڈیوز لگا کر شہریوں کو اپنی طرف راغب کیا جاتا ہے۔
نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر کراچی کے ایک شہری نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ فیس بک پر ایک گروپ میں ایڈ ہوئے جہاں پر نان کسٹم پیڈ موبائل فونز لیپ ٹاپس وغیرہ کی پوسٹ لگی ہوئی تھیں اور جن کی قیمتیں بہت کم تھیں شہری کا مزید کہنا تھا کہ انکے سامنے اس گروپ میں سام سنگ موبائل فون کا ماڈل S23 Ultra کی پوسٹ آئی جس کی اصل قیمت 3 لاکھ روپے سے اوپر ہے اور وہاں اس کی قیمت صرف 15 ہزار روپے بتائی گئی۔
شہری کے مطابق جب انہوں نے یہ پوسٹ کھولی اور مزید تفصیل چاہی تو آگے سے مجھے میسیج کیا گیا کہ کہ یہ واٹس ایپ گروپ ہے جہاں آپ کو اس طرح کے مزید آفرز بھی ملیں گے اس میں آپ شامل ہو جائیں لہٰذا میں اس گروپ میں شامل ہوگیا اور کچھ دیر بعد اس میں لوگوں گے ریویوز آنے لگے کہ بہت شکریہ اصل پراڈیکٹ مجھے موصول ہوچکی ہے، کبھی آرڈر ڈسپیچ کی تصویر ڈال دی جاتی تھی۔
شہری کے مطابق انہوں نے سام سنگ S23 Ultra کا آرڈر کرانا چاہا جس میں مجھے کہا گیا کہ اصل قیمت 15000 ہزار روپے ہے آپ کیوں کہ ہمارے نئے کسٹمر ہیں آپ اس کا آدھا یعنی 7500 روپے ہمیں اس اکاونٹ پر بھیج دیں شہری کے مطابق انہیں نے مطلوبہ رقم جازکیش کرائی اور انہیں اسکرین شارٹ‎ بھی بھیج دیا کہ یہاں سے رقم بھیجی جا چکی ہے، اسکرین شاٹ دیکھنے کے بعد آگے سے جواب آیا کہ آپ کا بہت شکریہ 24 گھنٹوں میں آپ کی امانت آپ کے مطلوبہ پتا پر پہنچ جائے گی۔
شہری کے مطابق وہ انتظار میں تھے کہ آج نہیں تو کل ان کا موبائل فون ان کے گھر پر پہنچ جائے گا لیکن 2 دن بعد جب میں نے پوچھا کہ پراڈکٹ ابھی تک نہیں پہنچی تو آگے سے مجھے بلاک کردیا گیا اور اس وقت میں سمجھ گیا کہ یہ ایک فراڈ تھا لیکن اب دیر ہو چکی ہے۔
اس حوالے سے ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس میں کسی کو ٹریک کرنا بہت مشکل عمل ہوتا ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ بندہ کوئی اور ہوتا ہے نمبر کسی اور کے نام پر ہوتا ہے اور یہ کام چل رہا ہوتا ہے لیکن جس کسی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو انہیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی شکایت تمام شواہد کے ہمراہ ایف آئی اے کیں درج کرائیں اس کے لیے آن لائن سہولت بھی دستیاب ہے جس سے آپ شکایت کا اندراج کر سکتے ہیں، کیوں کہ ایف آئی اے ہر وقت ایسے فراڈ کے خلاف اقدامات کرتی ہے اور اس دوران کوئی ایسا کیس حل ہو جائے تو شکایت کے اندراج سے متاثرہ شخص کا ازالہ ممکن ہو سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *