9 مئی کا جرم مہران، کامرہ بیس پر دہشتگرد حملوں سے زیادہ سنگین ہے؟ عدالت کا وزارت دفاع کے وکیل سے سوال


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کررہا ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت کے روبرو دلائل پیش کررہے ہیں۔
گزشتہ روز خواجہ حارث نے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے۔ اس حوالے سے ملٹری ٹرائل کی 7 کاپیاں آئینی بینچ کے ساتوں ججز کو دی گئی تھیں۔
’اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا‘
آج سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جمال مندوخیل نے گزشتہ روز دی جانے والی آبزرویشن پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ کل خبر چلی کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 ججز غلط کہہ دیتے ہیں، اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے میڈیا کی پرواہ نہیں لیکن درستگی ضروری ہے، میں نے یہ بات عام تاثر میں کی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے یہ کہا تھا کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 لوگ کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ غلط ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، کہنا چاہ رہا تھا کہ فیصلے کو 2 افراد کسی محفل میں کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔
خواجہ حارث نے نے دلائل دیے کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، اکسیویں ترمیم کے فیصلے میں واضح ہے کہ فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں، سویلینز کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔
’جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟‘
خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کے لیے ترمیم کی ضرورت نہیں تھی، ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی بولے کہ اکسیویں ترمیم فیصلے میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کو ٹرائل کہاں ہوا تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے مزید کہا کہ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے 2 کورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا 9 مئی کا جرم ان دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشتگرد مارے گئے تھے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے دریافت کیا کہ کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کہ یہ کون تھے، کہاں سے اور کیسے آئے، کیا دہشتگردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تحقیقات یقینی طور پر ہوئی ہوں گی، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں اکسیویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ انہی تمام حملوں کی بنیاد پر ترمیم کی گئی تھی کہ ٹرائل میں مشکلات ہوتی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کامرہ بیس پر حملے کے ملزمان کا کیا ہوا، ان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا، جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس پر ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔
’بلوچستان اس معاملے پر متاثرہ فریق کیسے ہے؟‘
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہ بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا رہے ہیں۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے وکیل سکندر بشیر مہمند عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم بھی وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل اپنا رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کس حیثیت میں یہاں آئے ہیں، حکومت بلوچستان اس معاملے پر متاثرہ فریق کیسے ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بس آکر کہہ دیا ہم بھی دلائل اپنا رہے ہیں، آپ کو مطمئن کرنا ہوگا کہ آپ کو بطور فریق کیوں سنا جائے، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کے ہوتے ہوئے آپ بلوچستان حکومت کے پرائیویٹ وکیل کیسے بنے، وقفے کے بعد پہلے دلائل دیکر مطمئن کریں۔ بعد ازاں، کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *