بلوچستان شدید گرمی کی لپیٹ میں، سبی میں درجہ حرارت 51 ریکارڈ، بجلی کی لوڈشیڈنگ سے لوگ بے حال


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)محکمہ موسمیات کے مطابق بلوچستان کے مختلف شہروں میں آج شدید گرمی کے ریکارڈ توڑے گئے۔ سبی میں درجہ حرارت 51 C تک جا پہنچا، جو امسال کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔ اس کے ساتھ تربت میں 44 C، نوکنڈی میں 45 C اور چمن میں 40 C درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں درجہ حرارت 39 C تھا، جبکہ قلات میں 34، زیارت میں 30 اور ژوب میں 37 C درج کیا گیا۔ ساحلی شہروں میں بھی گرمی کی شدت معمول سے کہیں زیادہ رہی، گوادر میں 36 C اور جیوانی میں 35 C ریکارڈ ہوا۔ ماہرین موسمیات نے کہا ہے کہ روانہ آنے والے چند روز میں یہ لہر برقرار رہ سکتی ہے، لہذا عمر رسیدہ، بچے اور دل کے مریض خاص احتیاط کریں۔ سرکاری سطح پر عوام کو وافر مقدار میں صاف پانی پینے، دھوپ کے وقت گھر یا سایہ دار مقامات پر رہنے اور غیر ضروری باہر نکلنے سے گریز کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔شہریوں نے گرمی کی شدت کے باعث بجلی کی غیر اعلانیہ بندش پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ پنکھے بند ہونے سے درجہ حرارت کا مقابلہ مزید مشکل ہو گیا۔ طبی ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ لوگ الیکٹرولائٹس والے محلول استعمال کریں اور ضرورت پڑنے پر ٹھنڈے پیک یا گیلے کپڑے کا استعمال کریں تاکہ گرمی سے پیدا ہونے والی تکالیف کم ہوں۔محکمہ موسمیات نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ ہفتے شمال مغربی بلوچستان میں درجہ حرارت میں معمولی کمی کے آثار ہیں، مگر عام طور پر گرمی کی شدید لہر آنے والے دنوں تک برقرار رہے گی۔ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی ہدایات پر عمل کریں تاکہ گرمی کی اس شدید لہر سے محفوظ رہ سکیں۔ علاوہ ازیں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے جہاں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس شدید گرمی کے دوران شہر بھر میں غیر اعلانیہ اور طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے، جس نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔کوئٹہ کے جن علاقوں میں بجلی کی بندش معمول بن چکی ہے ان میں سیٹلائٹ ٹاﺅن، جیل روڈ، بروری روڈ، اسپنی روڈ، سریاب، کچلاک، پشتون آباد، خروٹ آباد، نواں کلی، کاسی روڈ، عالمو چوک، ہزارہ ٹاﺅن، مری آباد، طوغی روڈ، گلستان روڈ، زرغون روڈ، سمنگلی روڈ، کلی شابو، کلی اسماعیل، کلی عمر، کلی قمبرانی، کلی قندھاری، ارباب ٹان، جان محمد روڈ، منان چوک، سریاب مل چوک، کلی فیض، مشرقی بائی پاس، کلی مبارک، سبزل روڈ، قمبرانی روڈ اور کلی غوث آباد شامل ہیں۔ شہریوں نے شکایت کی ہے کہ بجلی کی بندش کے باعث گھروں میں پنکھے بند ہوچکے ہیں، پانی کی موٹریں کام نہیں کر رہیں، جس کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ بچے، بزرگ، خواتین اور مریض شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔ کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ دکانوں اور دفاتر میں کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے، جس سے روزگار بھی متاثر ہو رہا ہے۔عوامی حلقوں نے واپڈا اور محکمہ توانائی کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ متعدد علاقوں میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر ٹائر جلائے اور نعرے بازی کی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومتی دعوے محض زبانی جمع خرچ ہیں، عملی طور پر عوام کو ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ کوئٹہ میں فوری طور پر غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ بند کی جائے، بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اور بجلی بحران کے مستقل حل کے لیے اقدامات کیے جائیں۔محکمہ بجلی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے تاہم شہریوں کو کم سے کم تکلیف پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم عوام اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر سال یہی بہانہ بنایا جاتا ہے اور عملا کوئی بہتری نہیں آتی۔شہریوں نے وزیر اعلی بلوچستان، چیف سیکرٹری اور دیگر حکام بالا سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سنگین مسئلے کا نوٹس لیا جائے اور بجلی کی فراہمی کو ہنگامی بنیادوں پر بحال کیا جائے، تاکہ عوام کو اس شدید گرمی میں کچھ ریلیف مل سکے۔