کیا نواز شریف 2022 میں واپس آئیں گے؟
لاہور(قدرت روزنامہ) کیا سابق وزیراعظم نواز شریف واپس آرہے ہیں؟ وہ کسی مفاہمت کے تحت آرہے ہیں یا انہیں واپس بھیجا جارہا ہے، ایسے سوالات میڈیا، سیاسی، غیر سیاسی، نجی، سرکاری مجالس میں ہر جگہ زیر بحث ہیں۔ لیکن اہم ترین اور کلیدی سوال یہ ہے کہ کیا وہ 2022 میں آجائیں گے اور ہاں تو کب؟ اس کی کوئی تاریخ ہے نہ ڈیڈ لائن لیکن یہ سوال حکمران تحریک انصاف اور اپوزیشن مسلم لیگ ن دونوں کیلئے بہت اہم ہے۔
دونوں چاہتی ہیں کہ وہ آئندہ سال پاکستان میں ہوں، وجوہات دونوں کی مختلف ہیں. پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ وہ سزا یافتہ کے طور پر جیل میں ہوں اور مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ وہ پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے اسے آئندہ انتخابات میں کامیاب کرائیں۔
لیکن نواز شریف واپسی اور اس کیلئے موزوں حالات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، یہ صرف وہی اور ان کے بچے جانتے ہیں. شاید بھائی بھی نہ جانتے ہوں لیکن یہ میں یقین سے نہیں کہ سکتا۔ ابھی کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی اور “لندن” اس بارے میں خاموش ہے۔
ہوسکتا ہے یہ دونوں بڑی پارٹیوں میں نفسیاتی جنگ کا حصہ ہو. اس سب کچھ نے 2022 کو ایک دلچسپ سال بنادیا ہے. اس کی پہلی سہ ماہی میں سیاسی جنگ کا میدان سج جائے گا۔ ہم ایک شدید میڈیا جنگ بھی دیکھ سکتے ہیں جس کی کچھ جھلکیاں حال ہی میں دیکھی بھی ہیں۔ لیکن یہ پیشگوئی بھی کی جاسکتی ہے کہ آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں سوشل میڈیا میں بھی زبردست پروپیگنڈا مہم شروع ہونے والی ہے. ملک پہلے ہی الیکشن موڈ میں ہے۔
شاید خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی وجہ سے کچھ جلدی ہی. کے پی میں ن لیگ کی اتحادی مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی کی 17 اضلاع میں کامیابی نے وزیراعظم کو اپنی جماعت کی تنظیمیں توڑ دینے پر مجبور کردیا۔ اگلے بلدیاتی انتخابات پنجاب میں ہونے والے ہیں جو ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، انہیں یقین ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو دوسری سرپرائز دیں گے. انہیں اتنے یقین کی وجہ پنجاب میں یکے بعد دیگرے ضمنی انتخابات میں کامیابیاں ہیں۔اس لئے انہوں نے اپنے لیڈر نواز شریف کی کامیابی کا پروپیگنڈا تیز کردیا ہے. دوسری طرف حکمران تحریک انصاف یہ دعویٰ کرکے حملوں کا جواب دے رہی ہے کہ نواز شریف خود نہیں آرہے۔
حکومت انہیں لارہی ہے، اس سلسلے میں برطانوی حکومت سے بات کر لی ہے. وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ واپس آتے ہی انہیں جیل بھیجا جائے گا. لیکن اس کے ساتھ ہی حکومتی ترجمان یہ بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے پر غور کررہے ہیں ، جن کی ضمانت پر انہیں علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
پی ٹی آئی کیلئے خوش خبری لندن سے آسکتی ہے ، اگر برطانوی حکام خود نواز شریف کو جانے کیلئے کہ دیں۔ لیکن اس کیس کے جلد فیصلے کے بارے میں قانونی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔ وہاں سے نکالے جانے کا امکان بہت کم ہے۔ وہ آرہے ہیں یا نہیں، میڈیا کے موضوع کے علاوہ یہ سوال مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں رسہ کشی کا باعث بھی بنا ہوا ہے۔ متنازعہ منی بجٹ کے ساتھ ساتھ یہ موضوع بھی چلتا رہے گا۔ منی بجٹ بھی حکمران جماعت کیلئے بڑا چیلنج ہے کیونکہ یہ واضح طور پر عام آدمی کیلئے نقصان دہ ہے۔حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں تک میں اس پر اتفاق رائے نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے انہیں پنجاب کے اور خیبر پختون خوا کے دوسرے مرحلے کے ضمنی انتخابات میں نقصان پہنچے گا۔ تو کیا وزیر اعظم آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے منی بجٹ 12 جنوری سے قبل منظور کرا پائیں گے۔
میں غلط ہوسکتا ہوں لیکن جب تک عمران خان وزیراعظم ہیں، مجھے نواز شریف کی واپسی کے بارے میں شکوک ہیں. ابھی تک ان کی واپسی کی کوئی تاریخ ہے نہ ڈیڈ لائن. سزا کے خلاف ان کی اپیل بھی ابھی زیر التوا ہے، انہیں یہ کیس بھی لڑنا ہوگا. وہ اور ان کی پیاری بیٹی مریم نواز تاحیات نااہل بھی قرار دی گئی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بعض لیڈروں نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ مارچ تک واپس آجائیں گے. لیکن ایاز صادق، جاوید لطیف سے رانا ثناء اللّٰہ تک کے یہ دعوے کاغذی بیانات ہیں یا ٹی وی بیپر۔ دوسری طرف شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف جیسے دوسرے رہنما اس سلسلے میں بیانات میں کچھ محتاط ہیں. حتیٰ کہ مریم نواز نے بھی اس سلسلے میں کوئی واضح بیان نہیں دیا. اس کا مطلب ہے کہ عملاً کوئی بات نہیں، محض شور ہے۔
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کیلئے کیا آپشن اور ان کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟ اس کا جواب آسان نہیں لیکن دو ٹھوس حقائق مد نظر رکھنے چاہئیں.. ایک یہ کہ نواز شریف سزایافتہ ہیں اور نااہل قرار دینے گئے ہیں. دوسرے یہ کہ وہ اب بھی مقبول رہنما ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ ان کے ساتھ ہیں۔
ان کی مقبولیت کم ہوئی ہوتی تو ان کی پارٹی یکے بعد دیگرے ضمنی انتخابات نہ جیتی ہوتی۔ اس لئے اگر انہیں جیل میں بھی ڈال دیا جائے تو اس سے حکومت اور وزیراعظم عمران خان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ان کیلئے امید کی واحد کرن یہ ہے کہ اپیلوں کے فیصلوں کا انتظار کیا جائے اور پھر لوگوں کو حقیقت تسلیم کرنے پر قائل کیا جائے۔ کمزور وزیر اعلیٰ کی وجہ سے پی ٹی آئی اور عمران خان کیلئے حالات مزید مشکل ہوگئے ہیں۔ پنجاب میں کوئی جارح مزاج وزیر اعلیٰ ہوتا تو پی ٹی آئی کیلئے سیاست بہتر ہوتی، عوام کے خیالات حکومت سے مختلف ہوتے ہیں۔