(قدرت روزنامہ) شہباز شریف فیملی ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے
حمزہ شہباز کا فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کو جمع کروایا گیا جواب منظر عام پر آگیا ،ایف آئی اے نے سوال کیا کہ بطور سی ای او رمضان شوگر مل اکاونٹس کا مکمل ریکارڈ رکھنا آپ کی ذمہ داری تھی،لین دین کیا ہوا؟ کتنی رقم منتقل ہوئی؟ کیوں اور کس نے کی؟ حمزہ شہباز نے جواب دیا کہ میں ایک دھائی تک سیاسی مصروفیات کے باعث کاروبار کو وقت نہیں دے سکا، رمضان شوگر مل، العریبہ کا کاروبار عملی طور پر سلمان شہباز دیکھتے تھے، میں صرف کاغذات کی حد تک سی ای او تھا، فنانس اور بک کیپنگ کے معاملات سی ایف او اور فنانس برانچ دیکھتی تھی، مجھے کمپنی کے حساب کتاب رکھنے کا بھی کبھی علم نہیں تھا،
ایف آئی اے کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا رضوان قریشی آپ کےلیے کام نہیں کرتا تھا؟ کیا رضوان قریشی چیکس اور کیش ڈیپازٹ نہیں کرتا تھا؟ جس پر حمزہ شہبا زنے جواب دیا کہ میں نے کبھی رضوان قریشی کو اپنی طرف سے کوئی لین دین کرنے کا اختیار نہیں دیا
واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز، ان کے بیٹے حمزہ شہباز اور دیگر کے خلاف 16 ارب منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ جرائم کورٹ میں جمع کرایا تھا جس میں ایف آئی اے نےمرکزی ملزم نامزد کیاتھا ایف آئی اے کی جانب سےجمع کرائےگئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی .
تحقیقاتی ادارے نے چالان میں کہا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف 100 گواہ عدالت میں گواہی دیں گے چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کےچپڑاسیوں/ کلرکوں کےناموں پرلاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں چلائے گے 28بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سےزیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی .
چالان میں کہا گیا تھا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کےنام اس وقت کےوفاقی وزیر اسحق ڈار کی مد سے کیا یہ چالان شہبازشریف اور حمزہ شہباز (دونوں ضمانت قبل از گرفتار پر) اور سلیمان شہباز (اشتہاری) کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرم کی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے اس میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2018 سے 2008 عوامیہ عہدوں پر براجمان رہے تھے .
قبل ازیں مسلم لیگ ن کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حمزہ شہباز نے بریت کی درخواست نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت دائر نہیں کی ،حمزہ شہبازنے کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898 کے سیکشن 265 کے تحت درخواست دی حمزہ شہباز نے رمضان شوگر ملزکے جھوٹے ریفرنس میں بریت کی درخواست دائر کی حمزہ شہبازنے سیاسی انتقام کے خلاف قانون کے تحت اپنے حق کا استعمال کیا حمزہ شہباز نے ضابط فوجداری کے سیکشن 265 کے کے تحت درخواست دائر کی اس کانیب کے نئے ترمیمی آرڈیننس سے کوئی تعلق نہیں ہے،بری کرنے کی درخواست میں گراونڈز وہی ہیں جو وہ پہلے بھی بیان کر چکے ہیں
. .