آزاد کشمیر سے تحریک انصاف کے لیے مثبت اشارے جبکہ ن لیگ کے لیے آنے والے اشارے تشویشناک ہیں

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سینئیر صحافی و کالم نگار سہیل وڑائچ نے حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی . اپنے حالیہ کالم میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ وفاق میں برسر اقتدار پاکستان تحریکِ انصاف کی آزاد کشمیر میں جیت کوئی اچنبھے کی بات نہیں .

گلگت بلتستان ہو یا آزاد کشمیر، دونوں جگہ کے ووٹرز وفاق میں برسر اقتدار جماعت ہی کو جتوانے کی روایت کے حامل ہیں . ووٹرز جائز طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ فنڈز اور طاقت و اختیار کا سرچشمہ وفاقی حکومت ہے . اس لئے وفاق میں برسراقتدار جماعت کو ووٹ دے کر وہ اپنے فنڈز اور زیادہ سے زیادہ حقوق کے حصول کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں . انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی جیت کو صرف وفاقی حکومت کے مرہونِ منت قرار دینا بھی درست نہیں . اِس حوالے سے دوسرے عناصر کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے . مریم نواز صاحبہ نے آزاد کشمیر میں زور دار مہم چلائی اور بڑے بڑے مجمعوں سے خطاب کیا . بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہے . اگر تو جلسے جلوسوں کا رنگ ڈھنگ دیکھا جائے تو پھر ن لیگ کو بہت کم سیٹیں ملی ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مریم نواز کراؤڈ پُلر ہیں، لوگ اُن کے جارحانہ خطابات کو سننے کے لئے آتے ہیں جبکہ حکومتی جلسوں میں کوئی ایسا مقرر نہیں تھا جس کی اسٹار ویلیو ایسی ہو . سہیل وڑائچ نے کہا کہ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی جیت ن لیگ کے لئے جھٹکا ہے . گزشتہ چند ماہ سے پی ٹی آئی اپنی معاشی کارکردگی میں بہتری کا جو ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے، اس کا عوامی ذہنوں پر اثر پڑا ہے . دوسری طرف اپوزیشن نے پی ڈی ایم کا جو حشر کیا اور جس طرح سے اپوزیشن کی پارٹیوں نے آپس میں تماشا لگایا اس کے لازمی اثرات بھی انتخابات پر پڑے ہیں . سہیل وڑائچ کا اپنے حالیہ کالم میں کہناتھا کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے ن لیگ کے لئے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں . ن لیگ کے حامیوں کے لئے دو بیانیوں کی کشتیوں میں سواری ایک مشکل مرحلہ ہے . ایک طرف شہباز شریف کا مفاہمانہ رویہ ہے تو دوسری طرف مریم نواز کا جارحانہ رویہ . ن لیگ نے اپنی حکمتِ عملی یہ بنا رکھی ہے کہ پارٹی سیاست اور عوامی جذبات کے لئے مریم نواز کو لیڈ دی جائے جبکہ پارلیمانی سیاست اور اتحادی سیاست کے لئے شہباز شریف کو آگے رکھا جائے . بظاہر یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی، پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ن لیگ مسلسل جیتتی رہی لیکن آزاد کشمیر میں یہ حکمت عملی کام نہیں آئی اور کامیاب جلسوں کے باوجود ن لیگ زیادہ سیٹیں نہ لے سکی بلکہ پیپلز پارٹی بآسانی ان سے کہیں زیادہ سیٹیں لے گئی . انہوں نے پی ٹی آئی سے متعلق کہا کہ پی ٹی آئی کو آزاد کشمیر میں اپنی فتح پر جشن منانے کا حق حاصل ہے مگر اسے یاد رکھنا چاہئیےکہ پاکستان کے اگلے انتخابات سے ایک سال پہلے حکومت کمزور ہوگی اور اپوزیشن مضبوط ہوتی چلی جائے گی . جس کے بعد حکومت کے لیے معاشی کارکردگی اور دیگر کاموں کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا . انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ حکومت کی خوش قسمتی رہی ہے کہ اسے مقتدرہ کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی جبکہ ماضی میں مقتدرہ اور حکومت میں ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی . سہیل وڑائچ نے کہا کہ وقت کے ساتھ چھوٹی پارٹیاں اور آزاد امیدواروں کے ووٹرز تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں . ایک طرح سے ٹو پارٹی سسٹم کی وجہ سے تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ ہوا ہے اور ہر جگہ پر اس کا 2018کے الیکشن کی نسبت ووٹ بینک بڑھ گیا ہے . پاکستان تحریک انصاف جب حکومت کے حصار سے باہر آئے گی تو اسے پتہ چلے گا کہ اس نے پارٹی کو بالکل نظرانداز کر دیا ہے . عرصہ سے عمران خان نے نہ پارٹی کا اجلاس بلایا ہے نہ کبھی تنظیم کے لئے وقت نکالا ہے . الیکشن کے لئے پارٹی کی مشینری متحرک نہ ہو تو انتخابی امیدواروں کے لئے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں . سہیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ آزاد کشمیر سے پاکستان تحریک انصاف کے لئے مثبت اشارے آئے ہیں . ن لیگ کے لئے آنے والے اشارے تشویشناک ہیں، اسے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہو گی . دو بیانیوں والی روش آئندہ انتخابات میں کارگر ہوتی نظر نہیں آتی . ن لیگ کےپالیسی سازوں کو پاکستان کے آئندہ انتخابات کے لئے ایسی حکمت عملی بنانی چاہئے جس سے یہ تاثر ملے کہ اگلا اقتدار انہیں ملے گا . یہ تاثر ہوگا تو 97ء یا 2013ء کی طرح کے نتائج آ سکتے ہیں . . .

متعلقہ خبریں