چین نے لداخ میں ایل اے سی کے قریب واقع جھیل پر نیا پل تعمیر کرنا شروع کردیا، نیا خطرہ

بیجنگ (قدرت روزنامہ)چین نےلداخ پر نیا پل تعمیر کرنا شروع کر دیا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق پنگوگ نامی یہ جھیل اس علاقے میں واقع ہے جسے چین اپنا علاقہ قرار دیتا ہے تاہم بھارت اسے متنازعہ علاقہ کہتا ہے۔ چین حکومت مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریب واقع ایک جھیل پرپل کی تعمیر کر رہی ہے ۔یہ پل جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں کو باہم ملا دے گا جس سے چینی فوج کوجھیل کے دونوں طرف رسائی حاصل ہو گی۔دوسری جانب چین نے کہا ہے کہ متنازع سرحد سے چین کے علاقے میں ‘غیرقانونی’

طریقے سے داخل ہونے والے بھارتی شہری کو واپس کردیا گیا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ویسٹرن تھیٹر کمانڈ کے ترجمان کرنل لانگ شاؤہوا نے ایک بیان میں کہا کہ بھارتی شہری حال ہی میں گشت کے دوران چینی بارڈر گارڈز کو نظر آیا تھا۔پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے ویسٹرن تھیٹر کے وی چیٹ کے آفیشل اکاؤنٹ میں جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ بھارتی شہری غیرقانونی طور پر چین کے علاقے میں داخل ہوا اور پھر معمول کے مطابق سوالات پوچھے گئے، قرنطینہ اور سرحدی قواعد و ضوابط کا جائزہ لیا گیا اور انسانی بنیاد پر مدد فراہم کی گئی۔انہوںنے کہاکہ بھارتی شہری کو چینی اور بھارتی فوج کے درمیان تبادلہ خیال کے بعد واپس کردیا گیا جبکہ اس سے قبل بھارت نے ان کی تلاش میں تعاون کی درخواست کی تھی۔چین کی جانب سے تازہ اعلان ایسے وقت میں آیا جب گزشتہ ہفتے بھارتی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ انہوں نے چین سے رابطہ کرکے درخواست کی ہے کہ وہ 17 سالہ بھارتی شہری میرام ٹاروم کو تلاش کرکے واپس بھیج دیں۔بھارتی شہری کے بارے میں رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ وہ سرحد کے قریبی علاقے سے لاپتہ ہوگئے تھے اور انہیں چین کے فوجیوں نے حراست میں لیا ہے۔چین کی جانب سے بھارتی شہری کی واپسی کے اعلان میں واضح نہیں کیا گیا کہ آیا وہ میرام ٹاروم ہی ہے یا اور دوسرا شہری ہے تاہم نئی دہلی کو خبردار ضرور کیا گیا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ ہم بھارت پر زور دیتے ہیں کہ وہ دوطرفہ معاہدوں پر سختی سے عمل کریں، انتظامی معاملات اور کنٹرول مضبوط کرنے اور سرحدی علاقوں میں حالات معمول پر لانے کے لیے اقدامات کریں۔خیال رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان ہمالیائی سرحد پر طویل تنازع ہے اور اکثر جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں، جہاں چین کا دعویٰ ہے کہ ارونا چل پرداش مکمل طور پر تبت کا حصہ ہے۔وادی گولوان میں 2020 میں شدید جھڑپیں ہوئی تھیں اور بھارت کے 20 فوجی مارے گئے تھے اور چین کے 4 فوجی بھی نشانہ بنے تھے۔