بلوچستان میں تعلیمی فضا ایک بار پھر خوف زدہ

رپورٹ:ارباز شاہ

 

سہیل اور فصیح نے بہتر مستقبل اور اعلی تعلیم کا خواب آنکھوں میں سجا کر کوئٹہ سے 147 کلومیٹر شمال مغربی ضلع نوشکی سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا رخ کیا اور یہاں بلوچستان کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ بلوچستان میں داخلہ لیا دونوں نے اعلیٰ تعلیم کیلے شعبہ مطالعہ پاکستان کا انتخاب کیا۔ دونوں بہت ذہین اور علم سے محبت کرنے والے طالبعلم ہیں۔

بلوچستان کے سرد علاقوں میں نومبر کے اخر میں امتحانات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ سہیل اور فصیح بھی امتحان کے تیاری میں مصروف تھے، کہ یکم نومبر کے شام کچھ نامعلوم افراد جامعہ بلوچستان کے ہاسٹل میں داخل ہوئے اور دونوں نوجوان طالبعلموں کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لئے گئے جو تاحال لاپتہ ہیں۔

نوجوان طالبعلموں کے اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ لیکن پولیس کے مطابق تاحال اس بابت کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

وزیراعلی بلوچستان نے اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ جو 24 گھنٹوں میں واقعے کی رپورٹ پیش کرے گی۔

دوسری طرف بلوچستان کے طلبا و طالبات اس واقعے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ تین دن سے طلبا و طالبات جامعہ بلوچستان میں واقعے کے خلاف دھرنے دیے بیٹھے ہیں، اس کے ساتھ کلاسوں کا بھی بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ جس کے باعث جامعہ بلوچستان کے انتظامیہ نے جامعہ کو غیر معینہ مدت تک بند کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔

دھرنے میں شریک طالبعلموں کا مطالبہ ہے کہ اغوا شدہ نوجوانوں کو جلد از جلد بازیاب کروایا جائے اور اس کے ساتھ جامعہ بلوچستان کی انتظامیہ ہاسٹل میں لگے سیکورٹی کیمروں کی فوٹیج تک انھیں رسائی فراہم کرے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ اغوا کار کون لوگ تھے۔ لیکن جامعہ بلوچستان کا انتظامیہ اس بات کو ماننے سے انکاری ہے ان کا موقف ہے کہ وہ تفتیشی اداروں کو ڈیٹا تک رسائی دینے کے پابند ہیں۔

یاد رہے مذکورہ واقعے کے بعد بلوچستان کے نوجوان مختلف سوالات اٹھانے لگے ہیں۔ ان کے مطابق اب بلوچستان میں تعلیمی ماحول کو ایک سازش کے تحت خوفزدہ بنایا جا رہا ہے تاکہ بلوچستان کے نوجوان تعلیم سے دور رہیں۔ بلوچستان میں اغوا کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ تسلسل کے ساتھ اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ لیکن تاحال کسی بھی واقعے کے ذمہ داران کا تعین نہیں کیا جا سکا اور نہ حکومت نے اس بابت کوئی واضح موقف دیا ہے۔

افسوس کن امر تو یہ ہے کہ کوئٹہ کی سخت سردی میں کھلے آسمان تلے دھرنا دیے طالبعلموں کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے بھی کوئی حکومتی عہدے دار تک نہیں آیا۔

ایک طرف تو موجودہ وزیراعلیٰ قدوس بزنجو ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا اعلان کرچکے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف دھرنا دینے والے طالبعلموں سے بات کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس سے وزیراعلیٰ بلوچستان کی ترجیحات کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

یاد رہے احتجاج کا دائرہ جامعہ بلوچستان سے نکل کر کوئٹہ شہر کے دیگر تعلیمی اداروں تک پھیل چکا ہے۔ ان اداروں میں بھی طالبعلموں نے کلاسوں کا بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ ان اداروں میں سائنس کالج اور ڈگری کالج جیسے بڑے تعلیمی ادارے شامل ہیں اور اگر اغوا شدہ طالبعلموں کو جلد از جلد بازیاب نہیں کروایا گیا تو یہ احتجاج صوبے کے دیگر تعلیمی اداروں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف اشتعال پھیلنے کا خدشہ ہے بلکہ طالبعلموں کی تعلیمی سرگرمیاں شدید متاثر ہو سکتی ہیں۔ سہیل اور فصیح نے بہتر مستقبل اور اعلی تعلیم کا خواب آنکھوں میں سجا کر کوئٹہ سے 147 کلومیٹر شمال مغربی ضلع نوشکی سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا رخ کیا اور یہاں بلوچستان کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ بلوچستان میں داخلہ لیا دونوں نے اعلیٰ تعلیم کیلے شعبہ مطالعہ پاکستان کا انتخاب کیا۔ دونوں بہت ذہین اور علم سے محبت کرنے والے طالبعلم ہیں۔

بلوچستان کے سرد علاقوں میں نومبر کے اخر میں امتحانات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ سہیل اور فصیح بھی امتحان کے تیاری میں مصروف تھے، کہ یکم نومبر کے شام کچھ نامعلوم افراد جامعہ بلوچستان کے ہاسٹل میں داخل ہوئے اور دونوں نوجوان طالبعلموں کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لئے گئے جو تاحال لاپتہ ہیں۔

نوجوان طالبعلموں کے اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ لیکن پولیس کے مطابق تاحال اس بابت کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

وزیراعلی بلوچستان نے اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ جو 24 گھنٹوں میں واقعے کی رپورٹ پیش کرے گی۔

دوسری طرف بلوچستان کے طلبا و طالبات اس واقعے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ تین دن سے طلبا و طالبات جامعہ بلوچستان میں واقعے کے خلاف دھرنے دیے بیٹھے ہیں، اس کے ساتھ کلاسوں کا بھی بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ جس کے باعث جامعہ بلوچستان کے انتظامیہ نے جامعہ کو غیر معینہ مدت تک بند کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔

دھرنے میں شریک طالبعلموں کا مطالبہ ہے کہ اغوا شدہ نوجوانوں کو جلد از جلد بازیاب کروایا جائے اور اس کے ساتھ جامعہ بلوچستان کی انتظامیہ ہاسٹل میں لگے سیکورٹی کیمروں کی فوٹیج تک انھیں رسائی فراہم کرے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ اغوا کار کون لوگ تھے۔ لیکن جامعہ بلوچستان کا انتظامیہ اس بات کو ماننے سے انکاری ہے ان کا موقف ہے کہ وہ تفتیشی اداروں کو ڈیٹا تک رسائی دینے کے پابند ہیں۔

یاد رہے مذکورہ واقعے کے بعد بلوچستان کے نوجوان مختلف سوالات اٹھانے لگے ہیں۔ ان کے مطابق اب بلوچستان میں تعلیمی ماحول کو ایک سازش کے تحت خوفزدہ بنایا جا رہا ہے تاکہ بلوچستان کے نوجوان تعلیم سے دور رہیں۔ بلوچستان میں اغوا کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ تسلسل کے ساتھ اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ لیکن تاحال کسی بھی واقعے کے ذمہ داران کا تعین نہیں کیا جا سکا اور نہ حکومت نے اس بابت کوئی واضح موقف دیا ہے۔

افسوس کن امر تو یہ ہے کہ کوئٹہ کی سخت سردی میں کھلے آسمان تلے دھرنا دیے طالبعلموں کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے بھی کوئی حکومتی عہدے دار تک نہیں آیا۔

ایک طرف تو موجودہ وزیراعلیٰ قدوس بزنجو ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا اعلان کرچکے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف دھرنا دینے والے طالبعلموں سے بات کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس سے وزیراعلیٰ بلوچستان کی ترجیحات کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

یاد رہے احتجاج کا دائرہ جامعہ بلوچستان سے نکل کر کوئٹہ شہر کے دیگر تعلیمی اداروں تک پھیل چکا ہے۔ ان اداروں میں بھی طالبعلموں نے کلاسوں کا بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ ان اداروں میں سائنس کالج اور ڈگری کالج جیسے بڑے تعلیمی ادارے شامل ہیں اور اگر اغوا شدہ طالبعلموں کو جلد از جلد بازیاب نہیں کروایا گیا تو یہ احتجاج صوبے کے دیگر تعلیمی اداروں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف اشتعال پھیلنے کا خدشہ ہے بلکہ طالبعلموں کی تعلیمی سرگرمیاں شدید متاثر ہو سکتی ہیں۔