بلوچستان

ریاست بلوچ لاپتا افراد کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ بند کرے، وی بی ایم پی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ، ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسز ایک غیر سیاسی تنظیم ہے سیاسی عزائم نہیں رکھتے اور ہم بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف 2009 سے وی بی ایم پی کے پلیٹ فارم سے پرامن اور ملکی قوانین کے تحت جد و جہد کرتے آرہے ہیں ڈی جی آئی آیس پی آر نے لاپتہ افراد کے حوالے سے جو کہا ہے ہم ثبوت کے ساتھ ان کو جوابدہ ہیں، پریس بریفنگ میں مچھ میں فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے جانے والے ودود ساتکزئی اور گوادر میں مارے جانے والے کریم جان کے نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل تھے جسے ہم تنظیمی سطح پر مسترد کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار لاپتہ افراد کے کیمپ میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اس موقع پر دیگر بھی موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ودود ساتکزئی12 اگست2022 میں جبری گمشدگی کا شکار ہوا تھا اور 9 فروری 2023 میں بازیاب ہوئے انکی بازیابی کی تصدیق وی بی ایم پی اور انکے اہلخانہ نے کیا تھا جو ریکارڈ پر موجود ہے، ودود ساتکزئی کی بازیابی کے بعد اسکے اہلخانہ سمیت کسی بھی تنظیم نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ جبری لاپتہ ہے اور نہ ہی کسی تنظیم کے لاپتہ افراد کی فہرست میں اس کا نام شامل تھا، ودود ساتکزئی نے اپنی بازیابی کے بعد کب اور کس طرح بی ایل اے کو جوائن کیا تھا اس کے حوالے سے ہمیں علم نہیں ہے۔ ڈی جی آئی آیس پی آر کے ترجمان نے اپنے پریس بریفنگ میں لاپتہ افراد کے حوالے سے الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ ملک سے باہر بیٹھے ہیں، ان کے نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں موجود ہیں اور بلوچستان کے علاقے مچھ اور گوادر میں فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے جانے والے ودود ساتکزئی اور کریم جان کے نام بھی لاپتہ افراد کی لسٹ میں شامل تھے، کریم جان کو فورسز نے 23 مئی 2022 میں جبری لاپتہ کیا تھا اور 31 جولائی 2022 کو سی ٹی ڈی کی طرف سے ان پر دھماکہ خیز مواد رکھنے کا الزام لگا کر انکی گرفتاری ظاہر کی تھی، تاہم انکی جبری گمشدگی کے ناقابل تردید شواہد کی وجہ سے عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بجا طور پر بری کردیا اور 17 اگست 2022 کو عدالت کے حکم پر کریم جان کو رہا کیا گیا، کریم جان کے رہائی کے بعد اسکے اہلخانہ اور نہ ہی کسی تنظیم نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ جبری لاپتہ ہے اور نہی لاپتہ افراد کے فہرست میں انکا نام شامل تھا۔ پریس بریفنگ میں یہ بھی کہا کہ کچھ لوگ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں انکا نام بھی مسنگ پرسن کی فہرست میں شامل ہے اس کو مسترد کرتے ہیں اور ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی ایسے شخص کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہے جو ملک سے باہر بیٹھا ہو یا وہ بلوچ مسلح تنظیموں کا حصہ بن کر ریاست کیخلاف لڑرہا ہو۔ انہوں نے سرفراز بنگلزئی کے سلیم صافی کے ساتھ ہونے والے ایک انٹرویو کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جہاں پر سرفراز بنگلزئی کہتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ وہ افغانستان میں بیٹھے ہوئے ہیں ان کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے تو سلیم صافی ان سے سوال کرتے کہ ایک ایسے شخص کا نام بتا دیں جو افغانستان میں بیٹھا ہے اور اس کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے تو سرفراز بنگلزئی کہتا ہے کہ سفیر بلوچ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے اور اس کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ سفیر بلوچ لاپتہ ہے اور نہ ہی اس کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے بلکہ سفیر بلوچ کا بھائی جمیل سرپرہ لاپتہ ہے۔ سرفراز بنگلزئی 15 سال سے بلوچ مزاحتمی تنظیموں کے ساتھ منسلک رہا ہے اور افغانستان بھی چلا گیا تھا اب وہ ریاست کے سامنے ہتھیار ڈال دیا ہے لیکن ایک بھی ایسے شخص کا نام ثابت نہیں کرسکا کہ وہ ملک سے باہر بیٹھا ہو اور اس کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہو کہ وہ لاپتہ ہے جب 1976 میں سردار عطا اللہ کے بیٹے اسد اللہ مینگل کو ان کے ایک دوست احمد شاہ کرد کے ساتھ حساس اداروں نے شدید تشدد کے بعد غیر قانونی طریقے سے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا جو بلوچستان میں جبری گمشدگی کا رپورٹ ہونے والا پہلا کیس ہے تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالقفار بھٹو نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب اس نے ملک کے طاقتور اداروں کے سربراہوں سے پوچھا کہ مجھے بتایا جائے کہ اسد اللہ مینگل اور اسکا دوست زندہ ہے یا نہیں اگر زندہ ہے تو وہ کس ادارے کی حراست میں ہے، ذوالفقار بھٹو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ انہیں طاقتور اداروں کے سربراہوں کی طرف سے یہ جواب ملا کہ اسد اللہ مینگل کے خاندان کو بتایا جائے کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ افغانستان چلا گیا ہے، اگر دیکھا جائے اب بھی پچاس سال گزرنے کے بعد بھی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ریاستی ادارے یہی منفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ لاپتہ افراد بیرون ملک چلے گئے ہیں یا پھر وہ کہتے ہیں کہ وہ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کا حصہ ہو کر ریاست کے خلاف مسلح کارروائیاں کررہے ہیں۔

متعلقہ خبریں