پاکستانی اور ایرانی پیٹرول میں کیا فرق ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے حال ہی میں حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت میں بڑی کمی کی گئی ہے جس کے بعد ملک بھر میں پیٹرول 273 روپے فی لیٹر میں فروخت ہورہا ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں کمی کو جہاں عوام نے سراہا وہیں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی پیٹرول کی قیمت کو ایرانی پیٹرول کی قیمت پر لایا جانا چاہیے۔
دراصل ایرانی پیٹرول بلوچستان سے منسلک ایرانی سرحد سے غیر قانونی طور پر پہلے گوادر، دالبندین، نوشکی سمیت دیگر سرحدی علاقوں میں لایا جاتا ہے جس کے بعد ایرانی پیٹرول کو پہلے کوئٹہ اور بعدازاں ملک کے دیگر حصوں میں اسمگل کیا جاتا ہے۔ سرحدی علاقوں میں ایرانی پیٹرول 150 روپے، کوئٹہ میں 180 روپے جبکہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 210 سے 230 روپے کے درمیان فروخت ہورہا ہے۔
اکثر اوقات لوگوں کے درمیان یہ بحث رہتی ہے کہ ایرانی پیٹرول قمیت میں تو کم ہے لیکن اس کو مسلسل استعمال کرنے سے گاڑی یا موٹر سائیکل کے انجن کو نقصان پہنچتا ہے۔
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اچھا پیٹرول کون سا ہوتا ہے۔ پیٹرول دراصل ہائیڈروجن اور کاربن کا ایک کمپاؤنڈ ہے جو کیمیائی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، اچھا پیٹرول اسے تصور کیا جاتا ہے جس کے کیمیائی فارمولا کا آخری چین 8 الیکٹران سے مکمل ہو۔ آسان زبان میں بتایا جائے تو وہ پیٹرول جس کا کیمیائی فارمولا مکمل ہو بہترین پیٹرول کہلاتا ہے۔
پی ایس او سمیت دیگر کمپنیوں کا پیٹرول بہت سے مراحل سے گزر کر عوام تک پہنچتا ہے۔ سب سے پہلے زمین سے نکلنے والے خام تیل کو گرم کیا جاتا ہے اور پھر اسے پراسس کرنے کے لیے پلانٹ میں ڈالا جاتا ہے، جہاں مختلف مصنوعات ابلتی ہیں اور مختلف درجہ حرارت پر بازیافت ہوتی ہیں۔
’ہلکی مصنوعات جیسے بیوٹین اور دیگر مائع پیٹرولیم گیسز (ایل پی جی)، گیسولین ملاوٹ والے اجزا، اور نیفتھا سب سے کم درجہ حرارت پر برآمد ہوتے ہیں جبکہ بعض بھاری مصنوعات ایک ہزار ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ درجہ حرارت پر بازیافت ہوتی ہیں‘۔
بعدازاں حاصل کردہ پیٹرول کو مختلف اقسام کے ٹیسٹ سے گزار کر اس بات کی تسلی کی جاتی ہے کہ اس میں کوئی ملاوٹ تو موجود نہیں۔ ایسا پیٹرول گاڑیوں سمیت ہر اقسام کی مشین کے لیے بہترین ہوتا ہے۔
تاہم اگر بات کی جائے ایرانی پیٹرول کی تو تفصیلات کے مطابق اس پیٹرول کو زیادہ ڈسٹیلیٹ نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ اسمگلر پیٹرولیم مقدار کو بڑھانے کے لیے اس میں مٹی کا تیل شامل کردیتے ہیں جس سے پیٹرول اپنی خالص حالت میں نہیں رہتا جبکہ دشوار گزار راستوں سے آنے والے اس پیٹرول میں کئی بار ریت اور مٹی بھی شامل ہو جاتی ہے۔
ان سب وجوہات کی وجہ سے ایرانی پیٹرول گاڑی یا کسی بھی مشین کے لیے زیادہ بہتر نہیں، اگر ایسے پیٹرول کو مسلسل استعمال کیا جائے تو گاڑی یا مشین کے خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔