آئی ایم ایف نے نئے معاہدے کیلیے تجاویز کا مسودہ پاکستان کے حوالے کردیا
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) آئی ایم ایف نے تین سالہ نئے قرض پروگرام کے لیے اسٹاف سطح کے معاہدے کے لیے تجاویز کا مسودہ پاکستانی حکام کے ساتھ شیئر کردیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان کی معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کے نئے پروگرام کیلئے عائد کردہ شرائط کے تناظر میں اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ کی تیاری کو حتمی شکل دینا شروع کردی۔ اگلے مالی سال کے بجٹ میں آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 1290 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے جبکہ ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 1250 ارب روپے مقرر کرنے پر اصرار کیا جارہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ سازی کے بارے میں آئی ایم ایف کے ساتھ جاری آن لائن رابطوں اور ورچوئل ملاقاتوں میں معاملات کو آگے بڑھایا جارہا ہے اور آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستانی حکام کے ساتھ تجاویز کا مسودہ شیئر کیا گیا ہے جس میں جی ایس ٹی کی معیاری شرح 18 فیصد سے بڑھا کر اُنیس فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اگر اس تجویز کو منظور کیا جاتا ہے تو اس سے ایف بی آر کو اگلے ایک سال میں 180 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔
اس کے علاوہ بجٹ میں پرسنل انکم ٹیکس کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف نے زیادہ آمدنی والے طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ شرح کو 30 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ سرکاری ملازمین کیلئے ٹیکس سلیبز کی تعداد بھی سات سے کم کرکے چار کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
آئی ایم ایف نے تمام زیرو ریٹنگ سے متعلقہ سیلز ٹیکس ایکٹ سے پانچواں شیڈول ختم کرنے اورما سوائے برآمدات کے دیگرتمام اشیا کو معیاری شرح جی ایس ٹی میں لانے کی تجویز دی ہے۔
اسی طرح چھٹے شیڈول میں بھی غیر ضروری ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ آٹھویں شیڈول کے تحت بھی ٹیکسوں کی رعایتی شرح کو صرف اور صرف غذائی اشیاء اور صحت و تعلیم سے متعلق ضروری اشیاء تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور ان اشیاء پر بھی اس شرح کو دس فیصد کے لگ بھگ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ سازی اب حتمی مرحلے میں داخل ہورہی ہے چونکہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کیلئے مذاکرات کررہا ہے اس لیے توقع ہے کہ حکومت آئندہ بجٹ میں طے شدہ شرائط کو نافذ کرے گی تاکہ بجٹ کی منظوری کے بعد اسٹاف لیول ایگریمنٹ پر دستخط کرنے کا راستہ ہموار ہو سکے اور پاکستان کو آئی ایم ایف سے تین سالہ قرض کا نیا پروگرام مل سکے۔