پاکستان

صدر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو انتخابات نہ کراتے، چیف جسٹس


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو انتخابات نہ کراتے، صدر مملکت عارف علوی پی ٹی آئی کے ہو کر کیوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے تھے؟ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل کا آغاز کیا۔ سکندر مہمند نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل 81 آزاد ارکان کے کاغذات نامزدگی بھی منگوائے تھے، تمام ریکارڈ ضلعی سطح پر ہوتا ہے مکمل ریکارڈ نہیں ملا لیکن اسکی سمری موجود ہے۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ تحریک انصاف کی ترجیحی فہرست بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ حامد رضا نے حلف لے کر کہا میں تو تحریک انصاف نظریاتی میں ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے حامد رضا کو ٹاور کا نشان دیا، ریٹرننگ افسران بھی تو الیکشن کمیشن کے ہی آفیشلز ہیں۔ وکیل نے بتایا کہ حامد رضا کی سب سے آخری درخواست پر الیکشن کمیشن نے عمل درآمد کیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حامد رضا نے کس سیاسی جماعت سے خود کو منسلک کیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو ریکارڈ ہے ہمیں دکھائیں، ورنہ تو ہوا میں بات ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد کسی امیدوار کو اختیار ہے کہ اپنی پارٹی تبدیل کرلے؟ کیا کوئی امیدوار کہہ سکتا ہے کہ فلاں پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی کا ٹکٹ لینا چاہتا ہوں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے کاغذات نامزدگی کا کیس ہے، ریٹرننگ افسران کے پاس امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک پارٹی سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے؟
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے جو آخری درخواست ہو اس کے ساتھ جانا ہوتا ہے، پہلے والا فارم الیکشن کمیشن نے کیوں نہیں دیکھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک شخص اگر شادی کرنا چاہے لیکن لڑکی کی بھی رضامندی ضروری ہے نا، جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں اسی کی پارٹی سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکیٹ لگانا ضروری ہے نا؟ سرٹیفیکیٹ تحریک انصاف نظریاتی اور ڈیکلریشن منسوخ پی ٹی آئی کا کریں تو قانون کیا کہتا؟ کیا آپ کسی کو انتخابات سے باہر کرسکتے ہیں؟
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ ریٹرننگ افسران کے لیے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے آسان راستہ تھا کہ ایسے امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا جائے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا ایسا ہوا کہ امیدوار کہے میں ایک پارٹی کا ہوں، اسی کا سرٹیفیکیٹ بھی دے لیکن الیکشن کمیشن نے اسے آزاد امیدوار ظاہر کر دیا ہو؟ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ ایسے امیدوار تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لی۔ جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ کیا دستاویزات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کا غیر سنجیدہ رویہ تھا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ نشان سے کنفیوژ نہ کریں، ہم تحریک انصاف کے امیدوار کیوں نہ تصور کریں، سرٹیفیکیٹ میں تضاد نہیں، الیکشن کمیشن امیدوار کی حیثیت تبدیل کر رہا ہے، جس پارٹی کا سرٹیفیکیٹ لایا جا رہا اسی پارٹی کا امیدوار کو تصور کیوں نہیں کیا جا رہا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے جو سمجھ آرہا کہ امیدوار کے پاس اختیار نہیں کہ آخری تاریخ گزرنے کے بعد اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ کا جواب سمجھ نہیں آرہا لیکن اگے بڑھتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے امیدواروں کو آزاد کیوں کہا جب خود کو وہ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ کہہ رہے تھے؟ کنفیوژن شروع ہوگئی کہ پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملا تو امیدوار کیا کرسکتا ہے، پوچھا تو الیکشن کمیشن سے جائے گا نا کہ انہوں نے کیا کیا؟ آزاد امیدوار تو الیکشن کمیشن نے بنایا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک امیدوار کی بات نہیں، تحریک انصاف کی بات ہو رہی جو قومی جماعت ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو کہا کہ آپ کو نشان نہیں ملے گا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن ایسا نہیں کہا کہ تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کر دیں، سپریم کورٹ کا تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد ہرگز نہیں تھا، بلے کے نشان کے فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کھڑی ہوتی لیکن تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد نہیں تھا۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ 22 دسمبر 2023 کو صدر مملکت کون تھا؟ وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ دسمبر 2023 میں صدر مملکت عارف علوی تھے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا نگراں حکومت تھی یا سیاسی جماعت کی حکومت تھی؟ کیا کسی نگراں حکومت کو نیوٹرل ہونا چاہیے؟ اتنی نیوٹرل جتنا الیکشن کمیشن ہے؟ کیا نگراں حکومت اتنی ہی انڈیپینڈنٹ ہونی چاہیے جتنا الیکشن کمیشن ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھتے تو انتخابات عارف علوی نہ کرتے، دنیا بھر کی باتیں کر رہے، صدر مملکت عارف علوی پی ٹی آئی کے ہو کر کیوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے تھے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں عوام کی منشا دیکھی جاتی ہے، اگر کوئی انتخابات پر سوال اٹھے تو الیکشن کمیشن کے پاس معاملہ جاتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی نشان بعد کی بات ہے، امیدوار انتخابات میں حصہ لیتا ہے، پارٹی نہیں، امیدوار صرف پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرتا، امیدوار کا حق ہے کہ اسے انتخابات کے لیے نشان ملے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئےکہ مفروضوں والی باتیں کیس میں نہ کریں۔ وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے پشاور کے پانچ رکنی بینچ کو مطمئن کیا، میرے دلائل کو ججز نے باہر نہیں پھینکا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایسا نہ کہیں کہ پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دے دیا تو بس ہوگیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حامد رضا نے ٹکٹ کس جماعت کا جمع کرایا تھا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹکٹ تحریک انصاف کا جمع کرایا گیا تھا، حامد رضا نے بیان حلفی دیا کہ وہ پی ٹی آئی نظریاتی کے امیدوار ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بیان حلفی کا معاملہ الگ ہے جمع کرایا گیا ٹکٹ پی ٹی آئی کا تھا۔ سکندر مہمند نے کہا کہ سنی اتحاد میں شامل ہونے والوں کی سب سے آخری درخواستیں منظور کی گئیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ امیدواروں کی حتمی فہرست 12جنوری کو جاری ہونا تھی، کیا کاغذات نامزدگی واپسی کی تاریخ کے بعد امیدوار پارٹی تبدیل کر سکتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ تک پارٹی ٹکٹ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی جانب سے جمع کرائے گئے فارم اے کا جائزہ کیوں نہیں لیا؟ الیکشن کمیشن نے صرف آزاد امیدوار والی آخری درخواست پر ہی عمل کیوں نہیں کیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امیدوار اپنی وابستگی چاہے بتائے لیکن پارٹی کی رضامندی بھی ضروری ہے، امیدواروں نے خود ٹکٹ اور پارٹی وابستگی میں تضاد قائم کیا، کیا قانون میں اس تضاد پر کوئی شق موجود ہے؟ یہ تو ایسا ہی ہے کوئی کسی سے شادی کرنا چاہے لیکن لڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہے۔
وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ اور وابستگی میں تضادات پر آر او کے پاس آزاد امیدوار ظاہر کرنا ہی بہترین حل تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بیان حلفی دے کر دوسری جماعت کا ٹکٹ دینے پر نااہلی نہیں ہوتی؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی اور ٹکٹ جمع کرائے تو کیا اسے آزاد ظاہر کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ جن 81 امیدواروں کی فہرست آپ نے دی ہے اس میں 35 نے وابستگی ظاہر نہیں کی، 65 امیدواروں نے ریٹرننگ افسر کو انتخابی نشان کیلئے درخواست ہی نہیں دی، ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی امیدوار الیکشن کے حوالے سے کتنے غیر سنجیدہ تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچھ امیدواروں نے پارٹی وابستگی اور ٹکٹ دونوں پی ٹی آئی کے ظاہر کیے، انتخابی نشان الگ چیز ہے ان امیدواروں کو پی ٹی آئی کا کیوں تصور نہ کیا جائے، امیدواروں نے نہیں الیکشن کمیشن نے انکی حیثیت پارٹی سے آزاد تبدیل کی۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کچھ امیدواروں نے تحریری نہیں زبانی طور پر پر پارٹی وابستگی واپس لی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے سے کنفیوژن پیدا ہوئی، پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی تھی تو امیدوار پارٹی ٹکٹ کہاں سے لاتے؟ امیدوار بھی ایسے ہی کنفیوژ ہوئے جیسے الیکشن کمیشن ہے۔ سکندر مہمند نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تضادات کے باوجود امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کے وقت ہی کہا پی ٹی آئی کو نشان نہیں ملے گا، الیکشن کمیشن نے بعد میں پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذات منظور بھی کیے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو نان پارٹی انتخابی نشان دے سکتا تھا۔ آپ نے بڑی آسانی سے کہہ دیا کہ نشان نہیں ملا تو آزاد امیدوار ڈیکلیئر کر دیں، اتنا بڑا فیصلہ کیسے کرلیا؟ کیا الیکشن کمیشن نے بات کی اس معاملے پر؟ کیا منٹس موجود ہیں؟ یا ریٹرننگ افسران کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ امیدوار کو آزاد ڈیکلیئر کر دیں، امیدوار تو کہہ رہا کہ میں فلاں سیاسی جماعت سے منسلک ہوں لیکن الیکشن کمیشن نے کہا کہ نہیں آپ آزاد امیدوار ہیں، امیدوار نے تو نہیں کہا کہ میں آزادامیدوار ہوں، وہ تو کہہ رہا کہ سیاسی جماعت سے منسلک ہوں، اگر الیکشن کمیشن نے کوئی دستاویز نہیں دیکھا تو عدالت کو دکھانے کا تو کوئی جواز نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ سادہ بات ہے پارٹی اور امیدوار کے درمیان معاہدہ ہوتا، کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کسی کو آزادامیدوار قرار دے سکتا؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میں ایک ہی سوال تیسری بار پوچھ چکی ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا ایسا مانا جائے کہ تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کیا گیا کیونکہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی؟ بینچ تو کہہ رہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ چھوڑ دیں 80 سے زائد امیدواروں کو، چھ امیدواروں نے سرٹیفیکیٹ اور ڈیکلریشن ایک ہی پارٹی کا بھی دیا لیکن چھ کو بھی الیکشن کمیشن نے آزاد امیدوار قرار دے دیا۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مجھے بتائیں کاغذات نامزدگی واپس نہ لیں تو حلف کی کیا حیثیت ہے؟ میرے سوال کا جواب نہیں دیا جا رہا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسا لگ رہا آپ نے شیکسپیئر کا ڈرامہ دیکھا ہے۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ چند امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لیے اور آزاد امیدوار خود کو ظاہر کیا، آزاد امیدوار سنی اتحاد میں شامل ہوئے، کیس میرا نہیں، سنی اتحاد کا ہے، دیکھنا ہوگا کہ اپیل میں سنی اتحاد نے کیا دلائل و حقائق سامنے رکھے، آزاد امیدوار ہونے کے لیے پارٹی جوائن کرنا ضروری ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدوار نے خود کو امیدوار ظاہر نہیں کیا بلکہ الیکشن کمیشن نے آزاد ڈیکلیئر کیا، الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزاد بنایا، الیکشن لڑا، پھر جماعت کے ساتھ منسلک ہونا چاہ رہے تو الیکشن کمیشن کہہ رہا کیسے شامل ہوسکتے؟ الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزاد امیدوار کہا اور اب جب امیدوار اپنی پارٹی میں شامل ہونا چاہ رہا تو الیکشن کمیشن مذاق اڑا رہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے سننا پسند ہے، میرا اپنا دماغ بھی ہے لیکن وکیل کو سننا چاہتا ہوں۔ وکیل نے بتایا کہ تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ تو کسی کو ملا ہی نہیں۔، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کچھ حقائق واضح ہوتے جس کے لیے آپ کا یا میرا بولنا نہیں ضروری، الیکشن کمیشن کے عدالت کو مہیہ کیے گئے دستاویزات میں تنازع ہے۔
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ حامد رضا نے شٹل کاک مانگا لیکن شٹل کاک تو الیکشن کمیشن کے پاس نشان دستیاب تھا ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نشان نہ ملنے پر کسی امیدوار کا کیسے کسی پارٹی سے تعلق ٹوٹ سکتا؟
ڈی جی لاء نے روسٹرم پر سنی اتحاد کا مخصوص نشستوں سے متعلق مینی فیسٹو پڑھا۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن ہر سیاسی جماعت کا مینی فیسٹو پڑھ کر انہیں مخصوص نشستیں دیتا ہے؟ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ مجھے ضروری لگا کہ سنی اتحاد کا مینی فیسٹو عدالت کے سامنے لایا جائے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا میں تمام پارٹیوں کا دیکھوں یا ایک پارٹی کا مینی فیسٹو دیکھوں؟ دیگر پارٹیوں کے مینی فیسٹو کو نظر انداز کیوں کروں؟ وکیل نے کہا کہ آپ کسی اور پارٹی کا مینی فیسٹو نہ دیکھیں، آپ میری بات سنیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کو خود آزاد ڈیکلیئر کیا، آپ کے آزاد ڈیکلیئر کرنے پر وہ کامیاب ہو کر واپس اپنی ہی جماعت میں شامل ہوا، اب آپ کہہ رہے ہیں سنی اتحاد کونسل کا چیئرمین خود کیسے اپنی جماعت میں شامل ہوا؟ یہ صورتحال آپ کی اپنی پیدا کردہ ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس جمال مندوخیل کے سوال پر ریمارکس دیے کہ مدھم آوازوں کو بھی توجہ دیں۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ میں ہر کسی کو سوال کا جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وکیل سکندر بشیر کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز پڑھے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مخصوص نشست لینی ہے تو جنرل سیٹ جیتنی پڑے گی جو سنی اتحاد جیتنے میں ناکام رہی، آزاد امیدواروں کا سنی اتحاد سے کوئی تعلق نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا تحریک انصاف اور سنی اتحاد نے کوئی لسٹ دی؟ وکیل نے بتایا کہ تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کی لسٹ دی لیکن سنی اتحاد نے نہیں دی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ تحریک انصاف کو کوئی مخصوص نشست نہیں دی گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انتخابات سے الگ کر دیا تھا، سپریم کورٹ اگر کہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی غلط تشریح کی تو کیا اثرات ہوں گے؟ الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ کسی پارٹی کو انتخابات سے باہر کرے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن وکیل سے سوال کیا کہ آپ کو کتنا وقت لگے گا؟ ایک دو منٹ؟ وکیل نے جواب دیا کہ مجھے کافی وقت دلائل دینے میں لگیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو کوشش کر رہے کہ جلد ختم کریں، پیر کا دن رکھ لیں؟ ساڑھے گیارہ بجے؟ تحریک انصاف کی لسٹ آج مہیہ کر دیں۔ وکیل نے کہا کہ میں تحریک انصاف کی لسٹ دے دوں گا۔
سپریم کورٹ نے دیگر وکلاء کو تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ مہیہ کرنے کی ہدایت کر دی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی ہدایت کی کہ دیگر امیدواروں کے سرٹیفیکیٹ اور ڈیکلریشن بھی مہیہ کر دیں۔ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ خبریں