ٓپاکستان میں انٹرنیٹ سے پریشان فری لانسر ’ورچوئل سسٹمز‘ خریدنے پر مجبور
ہمارا تو نقصان ہے ہی لیکن اصل نقصان حکومت کا ہے، عالمی مارکیٹ میں کلائنٹس پاکستان کے فری لانسرز کو ایک آپشن کے طور پر نہیں دیکھیں گے
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں انٹر نیٹ گیٹ ویز پر فائر وال کی تنصیب کے ساتھ ہی انٹرنیٹ کی سست رفتار کے باعث ملک میں فری لانسر کے لیے کئی مسائل بڑھ گئے ہیں۔ فری لانسر نے ایسے دوطرفہ نقصان قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے ہمیں تو نقصان ہوگا لیکن حکومت کو ہم سے زیادہ نقصان ہوگیا۔
واضح رہے کہ حالیہ مہینوں خبریں زیر گردش تھی کہ حکومت نے سوشل میڈیا کو ’اپنے طریقے‘ سے کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ کمپنیز میں فائروال (فلٹر) لگانے کی تمام تیاری کرلی ہے جس کی بدولت سماجی روابط کی ویب سائٹ سائٹس مثلاً فیس بک، یوٹیوب اور ایکس پر ’قابلِ اعتراض مواد‘ مواد روکنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اس ضمن میں تازہ پیش رفت دو روز قبل سامنے آئی۔ پاکستان میں سوشل میڈیا فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور دیگر سماجی روابط کے پلیٹ فارم پر سیفٹی فائر وال کا دوسرا اور ممکنہ طور پر آخری کامیاب تجربہ مکمل کیا گیا اور اس کے بارے میں وزارت آئی ٹی اور پی ٹی اے حکام نے چپ سادھ لی ہے۔
اب اس معاملے پر انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے کہ ملک کی ڈیجیٹل معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران انٹرنیٹ کی رفتار میں 30 سے 40 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے، کال سینٹرز، ای کامرس کے پیشہ ور افراد، آن لائن ورکنگ کلاس اور الیکٹرانک سے متعلقہ کاروبار کرنے والوں کے لیے تباہ کن رہا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں آن لائن مارکیٹنگ کمپنی کے بانی مہتاب احمد نے ملک میں انٹرنیٹ کی حالیہ ڈاؤن گریڈیشن اور بار بار بندش کے باعث مشکلات کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے جن کا انہیں اور ان کی ٹیم کو گذشتہ چند ہفتوں سے سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں مختلف پلیٹ فارمز تک رسائی میں بہت مشکل پیش آ رہی ہے اور ہمارا کام بھی اس نوعیت کا ہے کہ اس میں مختلف پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے کام کیا جاتا ہے۔’
امریکہ میں ورچوئل سسٹمز خریدنے پڑے
انہوں نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش یا سست رفتار جیسے مسائل سے بچنے کے لیے انہیں امریکا میں ورچوئل سسٹمز خریدنے پڑے جس کے باعث وہ باآسانی انٹرنیٹ سے جوڑے رہتے ہیں۔
مہتاب احمد نے بتایا کہ ’ورچوئل سسٹمز خاصے مہنگے تھے اور یہ ایک اضافی قیمت ہے جو مجھے اپنے کاروبار کے حوالے سے اٹھانی پڑی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہماری ڈیجٹیل کلائنٹس کم ہوگے تو اس کا نقصان براہ راست حکومت کو بھی ہوگا، ہمارا سرمایہ کم ہوگا لیکن عالمی مارکیٹ میں کلائنٹس پاکستان کے فری لانسرز کو ایک آپشن کے طور پر نہیں دیکھیں گے۔’ مہتاب کے نزدیک فی الحال تو اس کا واحد حل وی پی این کا استعمال ہی ہے۔
اسی طرح آن لائن موٹرسائیکل یا ٹیکسی سروس فراہم کرنے والی موبائل ایپس کا استعمال کرنے والے افراد بھی اسی کرب کا شکار ہیں۔ ان ڈرائیو ایپ کے تحت اسلام آباد میں گاڑی چلانے والے اکثر ڈرائیور اس حوالے سے شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
لنکڈ ان پر نظر دوڑائیں تو ایسی بے شمار پوسٹس موجود ہیں جن میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ایمن شاہد جن کی پروفائل کے مطابق وہ لاہور کے ایک ہسپتال میں بطور ڈینٹسٹ کام کر رہی ہیں اور ایک فری لانسر بھی ہیں لکھتی ہیں کہ ’پاکستان میں انٹرنیٹ کا مسئلہ کافی دیر سے چل رہا ہے اور اب یہ بہت سے مسائل کا باعث اور رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔ ایسا متعدد مرتبہ ہوا ہے کہ مجھے کلائنٹس کے ساتھ بات کرتے ہوئے کنکشن کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔‘
’امید ہے کہ حکام اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ کر رہے ہیں کیونکہ اگر یہ مسئلہ طویل مدت کے لیے رہا تو آن لائن روزگار کمانے والوں کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔‘
مہتاب سمیت دیگر فری لانسرز کے مطابق اس مسئلے کا اس وقت ’ہمارے پاس حل وی پی این ہی ہے۔‘ تاہم پی ٹی اے کی جانب سے وی پی اینز کی رجسٹریشن کے عمل کا بھی آغاز کرنے کے اعلان کیا گیا ہے۔