معیشت / کاروباری دنیا

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تاریخی تیزی، عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)آج جمعہ کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج ایک لاکھ پوائنٹس کی تاریخی حد عبور کر گیا ہے۔ 100 انڈیکس میں 1031 پوائنٹس اضافے کے بعد ایک لاکھ 332 پوائنٹس پر ٹریڈ کررہا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج ماہرین اور معاشی تجزیہ کاروں سے گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اسٹاک ایکسچینج کے 100 انڈیکس کے ایک لاکھ پوائنٹس عبور کے قریب پہنچنے سے ملکی معیشت اور عام آدمی کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ کیا یہ ملکی معیشت کی بہتری کی نشاندہی کرتا ہے؟ اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل اضافہ کی وجوہات کیا ہیں؟
معاشی ماہر اور اسٹاک ایکسچینج ایکسپرٹ شہریار بٹ نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، 100 انڈیکس میں ایک ہفتے کے دوران 4 ہزار اور رواں ماہ میں 8 ہزار سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔
ملک میں معاشی استحکام کے باعث اسٹاک مارکیٹ بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے،کرنٹ اکاؤنٹ مسلسل تیسرے ماہ سے سرپلس ہے، مہنگائی میں بھی تیزی سے کمی ہوئی ہے اور شرح سود بھی 22 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد پر آ گئی ہے۔‘
شہریار بٹ کے مطابق شرح سود میں کمی کے باعث لوگوں نے سیونگ اکاؤنٹس سمیت بچت کی ہوئی رقوم بینکوں سے نکال کر اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کردی ہے، جس سے اسٹاک مارکیٹ میں اچانک بڑا اضافہ ہوا ہے۔
مستقبل قریب میں مزید اربوں روپے اسٹاک مارکیٹ میں انویسٹ ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ دسمبر کے آخر تک اسٹاک مارکیٹ ایک لاکھ 10 ہزار کی سطح بھی عبور کر لے۔‘
شہریار بٹ کا کہنا تھا کہ کسی بھی معیشت کا بیرومیٹر ہونے کے ناطے اسٹاک مارکیٹ ملکی معیشت کی درست نشاندہی کرتا ہے، پاکستان اسٹاک ایکسچینج اس وقت تاریخ کی بلند سطح پر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک معاشی طور پر مضبوط اور حکومت کی ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اصلاحات پر عمل در آمد بھی اسٹاک مارکیٹ پر مثبت اثرات مرتب کررہا ہے۔ ’اسٹاک مارکیٹ کی موجودہ کارکردگی اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہے کہ مارکیٹ کی کارکردگی اچھی ہے اور ملکی معیشت مثبت انداز میں پیش رفت کررہی ہے۔‘
ماہر اسٹاک ایکسچینج شہریار بٹ نے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اب کوئی بھی شخص ایک بھی شیئر خرید سکتا ہے اور شیئرز کی قیمت بھی انتہائی کم ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں ہی اسٹاک ایکسچینج میں 10 ہزار سے زائد نئے افراد شامل ہوئے ہیں۔
اور وہ شیئرز میں خرید و فروخت کر رہے ہیں، یہ تمام منافع ان عام لوگوں کے لیے بھی ہے جو کہ کم سرمائے سے کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔‘
گفتگو میں معاشی تجزیہ کار و سینیئر صحافی مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ دیگر ممالک کی نسبت بہت چھوٹی ہے، انڈیکس میں اضافے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مہنگائی میں کمی ہو گی یا کوئی عام آدمی کو فائدہ حاصل ہو گا۔
اس وقت مارکیٹ میں مثبت رجحان ہے سے آئی ایم ایف ڈیل اور قرض معاہدے کی تکمیل میں آسانی ہو گی، اس وقت اسٹاک عام آدمی کے لیے سرمایہ کاری کا موقع ہے لوگ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔‘
مہتاب حیدر سمجھتے ہیں کہ ملک میں ڈالر اور پراپرٹی کی صورتحال سمیت کم شرح سود کے پیش نظر اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کا بہترین موقع ہے، لیکن اس کے لیے اسٹاک مارکیٹ کی عقل و دانش کا ہونا انتہائی ضروری ہے، جلد بازی میں کسی کو بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج کاروبار سے واقف کراچی میں مقیم سینیئر صحافی حارث ضمیر نے بتایا کہ اسٹاک ایکسچینج میں 100 انڈیکس کے بڑھنے سے ہر اس شخص کو فائدہ ہو گا کہ جس نے شیئرز خریدے ہوئے ہیں۔
اب شیئر کی خریداری بہت عام ہوگئی ہے چونکہ اس میں بہت زیادہ سرمایہ درکار نہیں ہوتا اس لیے عام آدمی نے بھی مختلف کمپنیوں کے شیئر خریدتے ہوتے ہیں، شیئرز کی قیمتوں کے بڑھنے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں جن میں اس کمپنی کی کارکردگی سمیت کوئی بڑی اچھی خبر شامل ہیں۔‘
حارث ضمیر کے مطابق گزشتہ 6 ماہ میں شرح سود 22 سے 15 فیصد پر آنے کے بعد اب لوگ اپنا سرمایہ بینکوں سے اسٹاک مارکیٹ میں منتقل کررہے ہیں، اس کے علاوہ میوچل فنڈز پہلے حکومتی بانڈ میں سرمایہ کاری کر رہے تھے کیونکہ ان کو 22 فیصد تک منافع ملتا تھا۔
’اب وہ منافع کم ہوا ہے، اب ان فنڈز نے 100 ارب سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے اسٹاک ایکسچینج میں جس سے 100 انڈیکس بڑھا ہے اور بین الاقوامی سرمایہ کار بھی اس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔‘
حارث ضمیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ اس وقت دنیا کے مقابلے میں کافی سستی ہے، اس وجہ سے بین الاقوامی سرمایہ کار بھی اس میں سرمایہ کاری کررہے ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق 2 ماہ میں ایک لاکھ سے زائد سرمایہ کاروں نے اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی ہے۔

متعلقہ خبریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *