ریئل اسٹیٹ سیکٹر ایک بار پھر اٹھنے لگا، پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)کہتے ہیں کہ شعبہ تعمیرات کی ترقی سے 72 انڈسٹریز چلنے لگتی ہیں اور جب کوئی منافع کماتا ہے تو وہ سب سے پہلے پراپرٹی لینے کا سوچتا ہے۔ کیونکہ اس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ پراپرٹی نقصان نہیں دےگی، کچھ نہ کچھ منافع مل ہی جائےگا۔ لیکن گزشتہ 7 برسوں سے پراپرٹی کے کاروبار میں مندی سے سرمایہ ریئل اسٹیٹ سے ایسا نکلا کہ ملک کو ہی کنگال کرگیا۔ لیکن اب کراچی کا علاقہ ڈیفنس گزشتہ 6 ماہ سے ریئل اسٹیٹ کو دوبارہ کھڑا ہونے کی نوید سنا رہا ہے۔
ریئل اسٹیٹ سے منسلک معاذ لیاقت نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 2016 میں ایف بی آر نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے کہنے پر ٹیکس لگانا شروع کیا۔ جب نواز شریف 2013 میں آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے تو اس وقت پراپرٹی کی ٹرانزیکشن بہت تیزی سے ہورہی تھی لیکن سرکار کی جانب سے لگائی جانے والی قیمت بہت کم تھی تو ورلڈ بینک نے کہاکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے بہت بڑا ریونیو جمع ہوسکتا ہے جو اس وقت بلیک ہورہا ہے، تب ایف بی آر نے قانون سازی شروع کی۔
معاذ لیاقت نے کہاکہ 2016 میں ایک تجویز یہ آئی کہ زمین کی قیمت متعارف کرائی جائے اور اسحاق ڈار نے ویلیوٹر کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ ویلیوایشن سرٹیفیکیٹ لیکر آئیں گے لیکن بعد ازاں یہ ختم ہوگیا، لیکن دوسری جانب ایف بی آر کی جانب سے لینڈ ویلیو ریٹ کا معاملہ چلتا رہا اور اس میں شرط یہ تھی کہ اس کا ہر سال جائزہ لیا جائےگا۔
’6 ماہ سے پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان‘
معاذ لیاقت کہتے ہیں کہ جیسے ڈیفنس کا ایک پلاٹ جس کی قیمت 5 کروڑ تھی اور بک ویلیو تھی 10 لاکھ روپے، ایسے ہی ڈی ایچ اے سٹی کے پلاٹ کی قیمت 5 سے 7 لاکھ روپے لگائی جاتی تھی جبکہ اس کی مارکیٹ ویلیو 80 سے 85 لاکھ روپے تھی، تو اس تناظر میں دیکھا جائے تو لاکھوں کروڑوں روپے چھپ جایا کرتے تھے۔
معاذ لیاقت کے مطابق اس طرح پلاٹس کی قیمتیں گرنا شروع ہوگئیں اور اب گزشتہ 6 ماہ سے پراپرٹی کی قیمتیں دوبارہ بڑھنا شروع ہوگئی ہیں کیوں کہ پیسا گھوم پھر کر آخر میں آتا پراپرٹی کی طرف ہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت بحریہ ٹاؤن کا عروج تھا، کراچی شہر کا پیسا یہاں سے نکل کر بحریہ ٹاؤن چلا گیا اور پھر لوگ بحریہ سے واپس نکلے تو وہ پیسا واپس شہر میں آیا ہے۔
معاذ لیاقت کہتے ہیں کہ گزشتہ 6 ماہ سے اسٹاک مارکیٹ کی بہتر کارکردگی کے اثرات ریئل اسٹیٹ پر پڑے ہیں جیسا کہ اسٹاک مارکیٹ کے لوگوں کی پالیسی ہوتی ہے کہ جو منافع کماؤ اس سے کوئی زمین خرید لو۔
’آرمی چیف کی تاجروں سے ملاقاتوں کے اثرات سامنے آرہے ہیں‘
معاذ لیاقت کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں کراچی کے تاجروں کی تین ملاقاتیں چیف آف آرمی اسٹاف سے ہوئیں جس میں تاجروں کو اعتماد دلایا گیا کہ آپ پیسا باہر نا لے کر جائیں یہیں پاکستان میں لگائیں ہم تحفظ فراہم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے اثرات ریئل اسٹیٹ پر پڑے ہیں۔
معاذ لیاقت نے کہاکہ جب کنسٹرکشن سیکٹر چلتا ہے تو اس سے 72 دیگر انڈسٹریاں چلتی ہیں۔ شہر میں تعمیرات تو ہورہی ہیں لیکن ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ سے میٹیریل بہت مہنگا ہوچکا ہے، اگر ریئل اسٹیٹ پر لگایا گیا ٹیکس کم ہوجائے تو اس کا بھی مثبت اثر پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت دبئی پیسا نہیں جا رہا، جو جا رہا تھا وہ رک چکا ہے۔ جہاں تک رہی بات بحریہ ٹاؤن کی تو جب چیز وافر ہو جاتی ہے تو اس کا خریدار نہیں ہوتا اور بحریہ ٹاؤن کا واپس اپنی قیمت پر آنا ممکن نظر نہیں آتا۔
’پراپرٹی کی قیمتیں پہلے ہمیشہ ڈیفنس میں اوپر جاتی ہیں‘
ان کا کہنا ہے کہ رئیل اسٹیٹ کی مثال ایسی ہے کہ کراچی میں جب بھی پراپرٹی کا کام چلنا شروع ہوتا ہے تو وہ ڈیفنس سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت یہی صورت حال ہے، منی ٹرانسفر کا سرکل شروع ہو چکا ہے۔
معاذ لیاقت کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے آنے سے نقصان یہ ہوا کہ پیسا اُدھر چلا گیا اور وہاں سے پیسا ملک سے باہر چلا گیا جبکہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ پیسا اس شہر میں یا ملک میں ہی گھومتا رہتا تھا۔
’ریئل اسٹیٹ نیچے آنے سے سرمایہ کار دوسرے کاروبار کی طرف چلے گئے تھے‘
ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک اعظم معراج نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ریئل اسٹیٹ کی مارکیٹ 17-2016 سے ہی مندی کا شکار تھی۔ پھر 21-2020 میں تھوڑی بہتری نظر آئی لیکن نومبر 2024 تک تو اس انڈسٹری کا بھٹہ بیٹھ چکا تھا۔
اعظم معراج نے ریئل اسٹیٹ میں مندی کی وجوہات یہ بتائیں کہ ریئل اسٹیٹ نیچے آنے سے سرمایہ کار سونے، ڈالر اور اب اسٹاک مارکیٹ کی طرف چلے گئے تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تناظر میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ اب پراپرٹی پر ٹیکس لگے گا اور جتنے کی پراپرٹی فروخت ہوگی اتنی ہی قیمت لکھی جائےگی، دوسری جانب شرح سود بڑھنے سے کچھ سرمایہ داروں نے بینکوں میں پیسا رکھنا شروع کیا اور اسی وجہ سے غیرآباد علاقے جیسے ڈی ایچ اے سٹی اور فیز 8 جیسے علاقوں کی قیمتیں بالکل نیچے آگئی تھیں۔
اعظم معراج نے مزید بتایا کہ اب یکم نومبر 2024 سے جو تین دہائیوں سے ریئل اسٹیٹ سے منسلک سرمایہ کار تھے وہ واپس ریئل اسٹیٹ کی طرف پلٹ چکے ہیں کیوں کہ انہیں اب یقین ہو چلا ہے کہ آئی ایم ایف کی کوئی بھی ایسی شرائط نہیں جس سے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کو نقصان پہنچے اور دوسرا یہ کہ شرح سود میں بھی بتدریج کمی واقع ہورہی ہے۔
’20 سے 40 فیصد تک پلاٹس کی قیمتیں اوپر جاچکی ہیں‘
اعظم معراج نے کہاکہ کراچی میں ڈی ایچ اے فیز ایٹ میں قیمتیں بہت کم تھیں اور یکم نومبر 2024 سے یہاں پر لوگوں نے خالی پلاٹس خریدنا شروع کردیے ہیں جس کی وجہ سے کہیں 20 تو کہیں 40 فیصد تک قیمتیں اوپر آگئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بات کریں ڈی ایچ اے سٹی کی تو وہاں قیمتیں بہت نیچے چلی گئی تھیں کیوں کہ وہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی وہاں بھی قیمتیں 30 سے 40 فیصد تک اوپر آچکی ہیں تو مجموعی طور پر ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ سات برس پرانے والی پوزیشن پر ریئل اسٹیٹ چلا گیا لیکن یہی سلسلہ رہا تو ریئل اسٹیٹ بہت جلد 7 سال پرانی پوزیشن پر پہنچ جائےگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *