سینیٹ کمیٹی نے ایلون مسک سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیوں کیا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اور ٹیلی کام نے ٹیکنالوجی کمپنی اسپیس ایکس کے سی ای او ایلون مسک پر پاکستان مخالف مؤقف اپنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس ہوا جس میں سیٹلائٹ پالیسی کے حوالے سے بحث کی گئی، سینیٹر انوشے رحمان نے کہا کہ پی ٹی اے کے مطابق سیٹلائٹ پالیسی نگراں حکومت کے دور میں دی گئی۔
اجلاس میں چیئرمیں کمیٹی سینیٹر پلوشہ خان نے ایلون مسک پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان کے خلاف جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ افنان اللہ خان نے مطالبہ کیا کہ اسٹارلنک کو پاکستان میں لانچ کرنے کی اجازت ایلون مسک کی پاکستان سے معافی مانگنے سے مشروط کی جائے، ایلون مسک کے تبصرے گمراہ کن تھے۔
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے واضح کیا کہ اسٹار لنک انٹرنیٹ کو اس وقت تک لائسنس نہیں مل سکتا جب تک حکومت سیکیورٹی کلیئرنس نہیں دیتی۔
انہوں نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اسٹارلنک صرف اس وقت پاکستان آئے گا جب اس کے آپریشنز حکومتی پالیسیوں کے مطابق ہوں گے اور مقررہ گیٹ ویز کے ذریعے پاکستان میں لانچ کیا جائے گا، انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ اسٹار لنک نے پاکستان کے انٹرنیٹ سسٹم کو نظرانداز نہ کرنے کا عہد کیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ پاکستان میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کے لیے سب سے پہلے ایس ای سی پی میں رجسٹریشن ضروری ہے، اسٹار لنک نے 24 فروری 2022 میں پی ٹی اے کے پاس اپلائی کیا تھا لیکن پی ٹی اے نے معاملہ سیکیورٹی کلیئرنس کے لیے وزارت داخلہ کو بھجوا دیا تھا، اسٹار لنک کا معاملہ اب نئی اتھارٹی پی اے ایس آر بی کے پاس ہے جس کی منظوری کے بعد پی ٹی اے سٹار لنک کو لائسنس جاری کرے گا۔
پی ٹی اے کے چیئرمین نے کہا کہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ اور دیگر لو ارتھ آربٹ (ایل ای او) خدمات کی نگرانی کے لیے ایک وقف اسپیس ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی گئی ہے، اسٹینڈنگ کمیٹی نے اسپیس ریگولیٹری اتھارٹی سے اگلی میٹنگ میں اسٹار لنک کے لائسنسنگ اور خلائی پالیسی کے دیگر خدشات کو دور کرنے کے لیے تفصیلی بریفنگ کی درخواست کی۔
ایک قانون ساز نے اسٹار لنک کے رجسٹری میکنزم اور زیر التوا سیکیورٹی کلیئرنس کی حیثیت پر سوال اٹھایا، انہوں نے پی ای سی اے قانون سمیت اپنی ذمہ داریاں وزارت داخلہ کو سونپنے پر وزارت آئی ٹی پر بھی تنقید کی۔
کمیٹی نے پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل 2023 پر وزارت کے تبصروں پر تبادلہ خیال کیا، ایڈیشنل سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن نے وضاحت کی کہ وزارت قانون کو بھیجے جانے سے قبل اس بل کو کابینہ نے 2022 میں منظور کیا تھا۔
وزارت قانون کے ایک نمائندے نے یہ بھی کہا کہ مالیاتی اثرات پر مشتمل کوئی بل مناسب غور کے بغیر پیش نہیں کیا جاسکتا، بل پیش کرنے والے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان نے طویل تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مشاورت میں بہت زیادہ وقت لگا ہے اور بل کو ابھی تک منظور کر لیا جانا چاہیے۔
انہوں نے اصرار کیا کہ یہ بل آئین سے متصادم نہیں ہے اور وزارت قانون سے بل پر اپنے مؤقف کے بارے میں واضح بات چیت کا مطالبہ کیا۔
سینیٹر انوشہ رحمان احمد خان نے بھی ڈیٹا کے تحفظ کے مضبوط اقدامات کی اہمیت پر زور دیا، تفصیلی غور و خوض کے بعد کمیٹی نے اس معاملے کو مزید غور و خوض اور حتمی شکل دینے کے لیے قانون و انصاف ڈویژن کے نمائندوں کے ساتھ خصوصی طور پر ذاتی ڈیٹا پروٹیکشن بل پر ایک نکاتی ایجنڈا اجلاس بلانے پر اتفاق کیا۔
مزید برآں کمیٹی اجلاس میں ٹیلی کام فاؤنڈیشن کی کارکردگی پر تبادلہ خیال کیا گیا، بتایا گیا کہ یہ ایک سیلف فنڈڈ ٹرسٹ ہے اور اس وقت صحت کی خدمات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ 15 اسکولز چلائے جا رہے ہیں۔ اس سال کے آخر تک ٹرسٹ کی مجموعی آمدنی 1 بلین تک پہنچنے کی امید ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت مستقبل میں ٹرسٹ کا حصہ نہیں بنے گی اور یہ آزادانہ طور پر کام کرے گی، کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ ٹیلی کام فاؤنڈیشن کو اپنے بنیادی کاموں پر توجہ دینی چاہیے اور آزادانہ طور پر کام کرنا چاہیے۔