سرکاری ادارے ڈیجیٹلائزیشن کی جانب کیوں نہیں بڑھنا چاہتے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس ہوا جس میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 منظور کرلیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی امین الحق کے مطابق مذکورہ بل کی حمایت میں 10 جبکہ مخالفت میں 6 اراکین نے ووٹ دیا۔
وفاقی وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہتا، مجھے اس کے خلاف جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں ڈیجیٹلائزیشن کو ترجیح دے رہی ہیں، اور روایتی دفتری نظام کو ترک کیا جارہا ہے مگر پاکستان میں سرکاری ادارے ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہ رہے۔
وی نیوز نے اس حوالے سے چند سابق بیوروکریٹس سے بات کی، اور ان سے وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخر سرکاری ادارے کیوں ڈیجیٹلائزیشن کی طرف نہیں جانا چاہتے؟
’بہت سے سرکاری ادارے ایک حد تک ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں‘
اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق پریس سیکریٹری شفقت جلیل نے بتایا کہ اب تو کافی حد تک ادارے ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں۔ کابینہ کی جو میٹنگز ہوتی ہیں اس کی 52 یا پھر 28 کاپیاں اب نہیں بنتیں، ان کو ڈائریکٹ لیپ ٹاپ پر بھیج دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے کابینہ کے تمام وزرا کو ٹیبز دیے گئے ہیں جو مکمل طور پر کوڈڈ ہوتے ہیں اور ان تک کسی اور کی رسائی نہیں ہوتی۔ اور اگر کوئی رسائی کی کوشش بھی کرتا ہے تو پتا چل جاتا ہے کہ فلاں شخص رسائی حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی معلومات لیک ہونے کے خدشے کے پیش نظر ٹیبز میں سیکیورٹی فیچرز رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس کے علاوہ بہت سے سرکاری ادارے ایک حد تک ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود مزید ڈیجیٹلائزیشن کی ضرورت ہے۔
’اداروں میں موجود بڑی عمر کے لوگ ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جانے سے ہچکچا رہے ہیں‘
شفقت جلیل نے کہاکہ اداروں میں بڑی عمر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کا جدید ٹیکنالوجی سے کوئی واسطہ نہیں رہا، اس لیے وہ ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس سے بڑھ کی دوسری بات یہ ہے کہ ملک میں سائبر سیکیورٹی ابھی اتنی مضبوط نہیں ہے، اس لیے بیوروکریسی کے ادارے اور حکومت چاہتی ہے کہ ہماری معلومات لیکن نہ ہوجائیں۔
انہوں نے ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے مزید بتایا کہ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اب بہت سارا کام ای میلز اور پریذنٹیشنز کے ذریعے ہورہا ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ جس رفتار اور لیول کی ڈیجیٹلائزیشن ہونی چاہیے اس طرح سے نہیں ہو رہی۔ اداروں میں بیٹھے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ ڈیجیٹل ہوں مگر ڈیجیٹل لیٹریسی اور کپیسیٹی جیسے مسائل ہیں۔
’آج بھی کوئی بل آتا ہے تو میں کہتا ہوں، پرنٹ نکال کردیا جائے پھر پڑھ کر بتاتا ہوں۔ تو ہماری عمر کے لوگوں کی یہ ایک عادت بھی بن چکی ہے، جس کو ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ میں اس حق میں ہوں کہ جلد از جلد نظام کو ڈیجیٹلائزڈ ہو جانا چاہیے کیونکہ دنیا کہ ساتھ چلنا ہے تو ٹیکنالوجی کا استعمال ہر شعبے میں لازمی بنانا ہوگا۔‘
’سرکاری اداروں میں ڈیجیٹلائزیشن کا فقدان ہے‘
ایک سابق فنانس سیکریٹری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری اداروں میں ڈیجیٹلائزیشن کا فقدان ہے، گزشتہ قریباً 35 برس میں لوگوں کو مشین استعمال کرنے کی عادت نہیں ڈالی گئی تو اب کسی چیز کو سیکھنے اور پھر اپنانے میں وقت لگے گا۔ ’ادارے وہ تکلیف اٹھانا ہی نہیں چاہ رہے جن کے اٹھانے سے ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔‘
انہوں نے کہاکہ ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یوں شاید فائل میں ردوبدل کر سکتے ہیں، لیکن جب سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہو جائے گا تو کسی قسم کا ردوبدل کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
’یہ بات درست نہیں کہ بیوروکریسی نے سسٹم ڈیجیٹل نہ ہونے دینے کا تہیہ کررکھا ہے‘
’ڈیجیٹل کی جانب بڑھنے کے لیے اداروں میں صلاحیت ہے اور نہ ہی لوگ تیار ہیں کہ اس حوالے سے محنت کی جائے، انٹری لیول پر تو بہت اچھے بچے آرہے ہیں، جو ان تمام چیزوں سے واقف ہیں لیکن مڈ کیریئر کے افراد کے لیے زیادہ مسئلہ ہے جو اس مسئلہ کو ختم بھی نہیں کرنا چاہ رہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ یہ بات درست نہیں کہ بیوروکریسی نے ایسا نہ ہونے دینے کا تہیہ کرکرھا ہے، ڈیجیٹلائزیشن ایک ناگزیر ضرورت ہے، اور وقت کے ساتھ اتنی عام ہوجائے گی کہ کوئی شخص اس سے فرار حاصل نہیں کر پائےگا۔