اب بحریہ ٹاؤن کراچی کا کیا بنے گا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کے متحرک ہونے کے بعد بحریہ ٹاؤن کے پاکستان بھر میں موجود پراجیکٹس پر تلوار لٹکنے لگی ہے۔ ملک میں کم و بیش 7 برسوں سے زوال پزیر پراپرٹیز کے کاروبار میں مندی کے اثرات بالآخر ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار پھر سے سر اٹھانے لگا ہے لیکن بحریہ ٹاؤن کراچی میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ پراپرٹی کی قیمتیں سر اٹھانے ہی والی تھیں کہ نیب کے بحریہ ٹاؤن دبئی سے متعلق بیان اور اس پر ملک ریاض کے ردعمل نے بحریہ ٹاؤن کو بڑا دھچکا دیدیا ہے۔
بحریہ ٹاؤن میں پراپرٹی کے مالک اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک عبدالجلیل خان مروت کا کہنا ہے کہ مشکل سے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بہتر ہوتا دکھائی دے رہا تھا کہ نیب متحرک ہو گئی اور ملک ریاض کا بیان سامنے آگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اگر بحریہ ٹاؤن سے دفتری امور کے لیے کراچی شہر جانا ہوتا ہے تو فیول کے علاوہ بحریہ ٹاؤن تک آنے جانے کا 140 روپے ٹال ٹیکس اور لیاری ایکسپریس وے پر آنے جانے کے 120 روپے ادا کرنا ہوتے ہیں یعنی روزانہ 260 روپے۔ ان کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے یہ ٹیکس ختم کردیا تھا لیکن اب پھر لینے لگ گئے ہیں۔
پراپرٹی کی قیمتوں سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس میں ایک ماہ قبل مثبت تبدیلی آئی تھی لیکن جب سے یہ بیانات آئے ہیں بحریہ ٹاؤن کی پراپرٹی پھر سے گر چکی ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جن ولاز کی قیمتیں 2021 میں 50 لاکھ تھیں، اور ان کی قیمت 95 لاکھ تک پہنچ چکی تھی، اب پھر سے وہی ولاز 50-55 لاکھ تک آچکے ہیں۔ جو ولا 1 کروڑ 95 لاکھ پر تھا اس کی قیمت اس وقت 1 کروڑ 25 لاکھ تک گر چکی ہے۔ جو صورت حال چل رہی ہے اس سے لگتا یہ ہے کہ قیمتیں مزید نیچے آئیں گی۔
عبدالجلیل خان مروت کے مطابق خریدار نہ ہونا ایک الگ بات ہے لیکن جو لوگ پراپرٹی خرید چکے یا بحریہ ٹاؤن میں آباد ہیں وہ بھی اب وہاں سے نکلنے کی کوشش میں ہیں کیوں کہ اکثریت یہ سوچ رہی ہے کہ خود کو بچا کر کہیں اور سرمایہ کاری کریں۔
پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک معاذ لیاقت عبداللہ کا کہنا ہے کہ کراچی میں پراپرٹی کا کاروبار پھر سے چل پڑا ہے اور اس کا آغاز ڈیفنس سے ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے اثرات پورے کراچی تک جائیں گے اور یہاں سے نکل کر پورے ملک میں پراپرٹی بہتر ہوگی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ملک ریاض کے حالیہ بیان سے بحریہ ٹاؤن کی پراپرٹی بالکل نیچے آگئی ہے تو ایسا بھی نہیں، فرق ضرور آیا ہوگا لیکن 5 سے 10 فیصد۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن میں جس کی پراپرٹی کی قیمت پوری ہورہی ہے وہ پراپرٹی بیچ کر نکل رہا ہے لیکن خریدار بھی موجود ہیں۔ اب بھی ایسی سوچ موجود ہے کہ ڈیفنس میں 500 گز کا گھر 9 کروڑ روپے کا ملتا ہے اور بحریہ ٹاؤن میں 350 گز کا گھر 2 سے ڈھائی کروڑ میں مل جاتا ہے۔ لوگ بحریہ ٹاؤن میں خرید کر باقی رقم اپنی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں یا کہیں اور سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کراچی میں پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے فیصل شیروانی نے وی نیوز کو بتایا کہ پراپرٹی کا کاروبار پورے کراچی میں تب سے اٹھنا شروع ہوا جب شرح سود میں کمی آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا کیوں کہ جو پیسہ بنکوں میں تھا وہ پراپرٹی میں آیا اور اس کے مثبت اثرات بحریہ ٹاؤن کراچی پر بھی پڑے لیکن نیب کا بحریہ ٹاؤن کے حوالے سے بیان اور اس کے بعد ملک ریاض کے ردعمل نے مارکیٹ پر کچھ اثر ضرور ڈالا لیکن جیسے جیسے لوگ یہ بات سمجھنا شروع ہوگئے کہ حکومت منی لانڈرنگ روکنا چاہتی ہے تو دوبارہ لوگوں کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوچکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ان 2 دنوں میں خوف میں لوگوں نے اپنی پراپرٹی بیچی بھی ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بحریہ ٹاؤن ختم ہو رہا ہے یا لوگ بالکل چھوڑ جا رہے ہیں۔ کاروبار چل رہا ہے اور تھوڑی سی مندی کے بعد پھر سے نہ صرف خرید وفروخت ہورہی ہے بلکہ شعبہ تعمیرات میں بھی تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *