ہم کوئی دہشت گرد تھے؟ جو لاٹھی چارج کیا گیا: محسن شیخانی
کراچی (قدرت روزنامہ)چیئرمین آباد محسن شیخانی کا کہنا ہے کہ نسلہ ٹاور کا مسئلہ کراچی کا مسئلہ ہے، آباد نے تعمیراتی شعبے کو ہڑتال کی کال دی تھی، ہم کوئی دہشت گرد تھے؟ جو ہم پر لاٹھی چارج کیا گیا۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین آباد محسن شیخانی نے کہا کہ سندھ حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ریگولرائزیشن کریں گے، کل سندھ اسمبلی نے بل پاس کر دیا، مگر قرار داد پاس نہیں کرائی گئی۔ان کا کہنا ہے کہ شہر میں بغیر نقشوں کے عمارتیں بن رہی ہیں، ہم احتجاج بھی نہیں کر سکتے، آج بھی 700 عمارتیں بن رہی ہیں کوئی نہیں پوچھ رہا، کیا بلڈنگ ایک دن میں بنی، اداروں کی ذمے داری نہیں تھی، آباد کا مطالبہ ہے، عمارتوں کی اجازت دینے کے لیے ون ونڈو قائم کی جائے۔
محسن شیخانی نے کہا کہ ایک ملک میں دو قانون نہیں ہوتے، بلڈنگ کی تعمیر کے 5 سال بعد آرڈر آتا ہے کہ عمارت توڑ دی جائے، اس صورتِ حال کے بعد لوگ کیسے سرمایہ کاری کریں گے، کمشنر اور پولیس اپنی نوکری بچا رہے ہیں، شہر کو ہم تباہ کر رہے ہیں، ایک عمارت کی تعمیر کے لیے 17 این او سی لینے پڑتے ہیں، عمارت گرانے پر توجہ زیادہ اور معاوضہ دینے پر پر کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا ادارہ بنا دیں جس سے این او سی ملنے کے بعد اور کوئی تنگ نہ کرے، کراچی میں کئی برسوں سے 300 نقشے زیرِ التواء ہیں، وزیرِ اعظم، صدر، آرمی چیف اور بلاول بھٹو سے اپیل ہے کہ مسائل حل کرائیں، جہاں ڈاکیومنٹیشن کو نہیں مانا جا رہا وہاں کام بند کریں گے۔
چیئرمین آباد محسن شیخانی نے یہ بھی کہا کہ کراچی میں بغیر نقشے کے کئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں، کام نہیں کرنے دیا جا رہا، بیرونِ ملک سے سرمایہ کار کیسے آئیں گے، گورنر سندھ اور وزیرِ اعلیٰ سندھ کو کسی کی فکر نہیں ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی ناصر مگوں نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اس معاملے میں حکومت اور 17 این او سی دینے والوں کو پکڑا جائے، اجازت دینے والوں کی وجہ سے یہ مسئلہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ایف پی سی سی آئی کو عمارت کی اجازت نہیں مل رہی، ایسوسی ایشن آف بلڈرز کو لوگوں کی شکایات سننے کے لیے بھی کمیٹی بنانا چاہیئے۔صدر کراچی چیمبر نے کہا کہ ملک کے دیگر حصوں میں این او سی فوراً مل جاتے ہیں، مشکل میں ہوں تو کراچی یاد آئے، مصیبت ڈھانی ہو تو پھر کراچی میں ڈھائی جائے۔ادریس میمن نے کہا کہ کراچی سے باہر بڑے بڑےمنصوبوں میں عمارتوں کی این او سی کون دے رہا ہے، چیف جسٹس ہمیں سنیں، ہم کیس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔