سخت فیصلوں کے سبب ملک دیوالیہ ہونے سے بچ کر استحکام کے راستے پر آگیا، وزیر خزانہ
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سخت فیصلوں کے نتیجے میں ملک دیوالیہ ہونے سے بچ کر استحکام کے راستے پر آگیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پیر یا منگل تک زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 12 ارب ڈالر سے تجاوز کرجائیں گے، چین سے 2.4 ارب ڈالر ہمیں دو تین روز میں مل جائیں گے، موجودہ حکومت نے مشکل وقت میں سخت فیصلے کیے جس کے نتیجے میں پاکستان فوری طور پر ڈیفالٹ کو خطرات سے نکل آیا اور اب ہم پائیدار جی ڈی پی گروتھ کی طرف جائیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے جاتے جاتے سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے قیمت خرید سے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی، انہوں نے جو چیک لکھ کر دیا اسے مارکیٹ میں لے کرگئے تو پیسے نہیں تھے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ شرح نمو 5.97 فیصد ہوگئی ہے لیکن کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آپے سے باہر ہوگیا، برآمدات سمیت درآمدات میں بھی اضافہ ہوا، تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر کا ہوگیا ہے اور برآمدات و درآمدات کا 40 فیصد ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کو بیلنس آف پیمنٹ بحران کا سامنا رہا، بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل کی وجہ سے مالی ذخائر میں کمی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگلے ہفتے چین سے 2.5 ارب ڈالر کی رقم آنی ہے جس مالی ذخائر میں اضافہ ہوگا، خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہمیں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ پائیدار شرح نمو ہوگی جس میں جاری خسارہ اور بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ نہ ہو، ملک میں توانائی بہت مہنگی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے یہاں کچھ عرصے کے لیے انڈسٹری بند بھی ہوجاتی ہے،پچھلی حکومت نے کچھ عرصہ انڈسٹری کو گیس کی سپلائی بند کی، جس کی وجہ سے انڈسٹری بند ہوگئی۔ موجودہ حکومت نے اب وہ تمام انڈسٹری کھول دی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ طویل المیعاد سودے کیے جائیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 2018ء میں ہم 1500 ارب روپے قرضوں پر ادائیگی کررہے تھے، رواں مالی سال 3100 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کے لیے دیں گے۔ اگلے مالی سال 3900 ارب روپے کی رقم قرضوں کی ادائیگی کے لیے دینے پڑیں گے۔
اقتصادی سروے رپورٹ کے اعداد شمار
اقتصادی سروے کے اعداد شمار کے مطابق مالی سال 2020-21 کے دوران ملک میں 45 لاکھ 10 ہزار لوگ بے روزگار ہوئے جب کہ ملک میں غربت کی شرح 6.3 فیصد رہی۔ غربت کی یہ شرح 2017-18 میں 5.8 فیصد تھی۔
گیس کے معاہدے نہیں کیے گئے جس کی وجہ توانائی کے شعبے میں مہنگائی ہے، بجلی کے پلانٹ چلانے کے لیے ایندھن خریدنا پڑ رہا ہے۔
اس سال گندم کی پیداوار میں کمی ہوئی اور 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کررہے ہیں۔ 2018 میں ہم گندم اور چینی برآمد کرتے تھے۔
ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 11.5 فیصد پر چھوڑ کر گئے تھے، ابھی ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 15 فیصد ہونا چاہے تھا لیکن 8.5 فیصد ہے۔
رواں مالی سال کے دوران ملک میں دودھ کی پیداوار 6 کروڑ 36 لاکھ 84 ہزار ٹن سے بڑھ کر 6 کروڑ 57 لاکھ 45 ہزار ہوگئی۔
ملک میں انڈوں کی پیداوار برھ کر22 ارب51 کروڑ 20 لاکھ رہی۔
رواں مالی سال کے دوران ملک میں گدھوں کی تعداد مزید بڑھ کر 57 لاکھ ہو گئی۔ گھوڑوں، اونٹوں کی تعداد برقرار رہی۔ ملک میں گھوڑوں کی تعداد 4 لاکھ ہی برقرار ہے جب کہ اونٹوں کی تعداد بھی 11 لاکھ ہی برقرارہے۔
اقتصادی سروے میں پی ٹی آئی اور ن لیگ حکومت کاموازنہ
جولائی تامارچ 2017-18میں جی ڈی پی 6.10تھی جو2021-22ء میں 5.97فیصد ہے۔
جولائی تامارچ 2017-18میں مہنگائی 4.6فیصدتھی جو اب 10.8فیصد ہے ۔
25مئی 2018ء کو بنکوں کی شرح سود6.5فیصدتھی جو 8اپریل 2022میں 12.5فیصد ہے ۔
جو ن 2018ء میں ڈیٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 63.7فیصد تھی جواب بڑھ کر66.3فیصد ہوگئی ۔
2018ء میں پاکستان کاقرضہ24.5ٹریلین روپے تھا جواب مارچ 2022ء کے آخر تک بڑھ کر 44.37ٹریلین روپے ہوگیا ۔
2018ء میں سرکلر ڈیٹ 1152ارب روپے بڑھ کر اب 2467 ارب روپے ہوگیا ہے ۔
2018ء میں ڈالر115.62روپے کا تھاجواپریل 2022ء میں بڑھ کر 184.69روپے کاہوگیا۔
2018ء میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 2ہزار 90.7ارب ڈالر تھی جواب کم ہوکر 1285.1ارب ڈالر رہ گئی۔
2018ء میں تجارتی خسارہ 22.4ارب ڈالر تھا جو بڑھ کر اب 30.1ارب ڈالر ہوگیاہے ۔
8اپریل 2018ء کوملکی زرمبادلہ کے ذخائر 17.259ارب ڈالرتھے جو8اپریل 2022ء کو 17.027ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔