جب بحریہ ٹاؤن والے ملک ریاض کی ساری دولت اور اثرورسوخ ہار گئے اور اللہ توکل والا ایک فقیر جیت گیا، ایک ایسا سچا واقعہ جو آپ کا ایمان تازہ کردے گا

لاہور (قدرت روزنامہ) امارت اور غربت ازل سے ایک دوسرے کے مقابلے پر ہیں ۔ امیر لوگ ہمیشہ سے غریبوں کا استحصال اور انکی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے آئے ہیں ، اکثر امیر اور طاقتور بااثر لوگ کامیاب رہتے ہیں ، مگر بعض اوقات کمزور اور غریب کچھ پلے نہ ہونے کے باوجود
امیر اور طاقتور کو جھکنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ آج ہم آپ کو ایک ایسا واقعہ بتانے جارہے ہیں جو بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے ساتھ پیش آیا ، انکی ساری دولت اور اثر و رسوخ انہیں چند کنال زمین نہ دلا سکا ، کیونکہ انکے مقابلے پر ایک ایسا اللہ کا نیک بندہ تھا جس نے اپنی زندگی ایک نیک کام کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔یہ 2013 کی بات ہے جب پورے ملک اور بیرون ملک سے سرمایہ دھڑا دھڑ کراچی کا رخ کر رہا تھا ، کیونکہ وہاں راتوں رات لاکھوں روپے کروڑوں میں اور کروڑوں روپے اربوں میں تبدیل ہو رہے تھے ، ہر کوئی بحریہ ٹاؤن میں سرمایہ کاری کر رہا تھا لیکن دولت کے اس بہتے سمندر میں ہاتھ نہ دھونے والا اس وقت ایک ہی شخص تھا جو بحریہ ٹاؤن کے دروازے پر چند ایکڑ اراضی کا مالک تھا سید بدیع الدین آغا ، جی ہاں اس مرد قلندر کے پاس تو شاید ایک لاکھ روپے بھی نہ تھے مگر قناعت اور توکل کی دولت سے مالا مال تھا ، سید بدیع الدین بحریہ ٹاؤن کراچی کے دونوں مین دروازوں کے درمیان واقع 15 ایکڑ اراضی کے مالک تھے۔ ملک ریاض کے بروکرز نے اس اراضی کی بولی چند کروڑ سے شروع کی اور پھر چلتے چلتے یہ بولی 42 ارب روپے تک جا پہنچی ۔ جی ہاں سید بدیع الدین کو 15 ایکڑ کے اس قطعہ اراضی کے لیے 42 ارب روپے کی پیشکش کی گئی ، مگر سید صاحب کی زبان پر شروع سے لے کر آخر تک انکار رہا ،
اب آپ اس شش و پنج میں ہونگے کہ آخر یہ شخص کون ہے اور اس نے اتنی بڑی پیشکش کو ٹھکرا کیوں دیا ، آئیے جانیے اور حیران ہو جائیے ۔ کہانی شروع ہوتی ہے 1996 سے جب سید بدیع الدین کے والد سید علی آغا سپر ہائی وے پر ایک چھوٹے سے ہوٹل پر چائے پینے کے لیے رکے ۔ اس ہوٹل کے ساتھ ہی ایک ایکڑ کے چھوٹے سے پلاٹ پر علم لگا ہوا تھا ، اسی اثنا میں اس اراضی کے مالک امجد علی نقوی بھی ہوٹل پر آگئے ,انہوں نے سید محمد علی آغا سے بات چیت شروع کردی ، تھوڑی دیر بعد بولے ، آغا صاحب ، میں اس زمین پر امام بارگاہ بنانا چاہتا تھا مگر اب آپ آ گئے ہیں ، تو یہ جگہ آپ کے حوالے ، اس پر امام بارگاہ بنائیں ، مسجد یا مدرسہ ، آپ جو چاہیں کریں ۔ آغا محمد علی نے اس زمین پر مدرسہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ، یہ وہ وقت تھا جب اس علاقے میں آبادی کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہ تھا ، بجلی گیس اور پانی کی سہولت تو دور کی بات ہے ، ان دنوں سید بدیع الدین آغا سعودی عرب سے اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس آئے تھے ، انہوں نے اپنے والد سے کہا ، بابا جان اس دور دراز جگہ پر کون تعلیم حاصل کرنے آئے گا اور پھر مجھے تو یہاں کی علاقائی زبان بھی نہیں آتی ۔ اس پر سید محمد علی آغا بولے: بیٹا ایک وقت آئے گا یہاں ایک شہر آباد ہو گا ۔۔۔
اپنے والد کے حکم پر مجبور ہو کر سید بدیع الدین آغا نے چند طالبعلموں کے ساتھ اس ویران جگہ پر خیموں میں رہائش اختیار کی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا ۔ اس علاقے میں زندگی بہت دشوار تھی ، مگر سید بدیع الدین ثابت قدم رہے ۔ کچھ عرصہ گزرا تو اسی ہوٹل کے مالک نے اپنی زمین بھی مدرسہ کے لیے وقف کردی ۔لوگ انہیں وہاں تعلیم دیتا اور نماز کی تیاریاں کرتا دیکھتے تو کہتے جناب اس بیابان میں کون نماز اور قران پڑھنے آئے گا کسی آبادی کا رخ کیجیے ، مگر آغا صاحب ہمیشہ جواب دیتے ایک وقت آئے گا جب یہاں نماز پڑھنے والوں کا اتنا رش ہوگا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ ہو گی ، دیکھتے ہی دیکھتے 12 سال گزر گئے ، اسی دوران امام بارگاہ والے امجد علی نقوی نے اپنی اور زمین آغا بدیع الدین کے حوالے کر دی ۔ اور یوں یہ مدرسہ 15 ایکڑ اراضی پر محیط ہو گیا ۔ مدرسہ کے لیے زمین کا آخری سودا کرتے وقت آغا سید بدیع الدین کے پاس کچھ نہ تھا ، انہوں نے اپنی اکلوتی کار بیچی اور 2 لاکھ روپے بیعانہ ادا کردیے ۔ چند روز بعد عمرہ کے لیے مدینہ منورہ چلے گئے۔ وہاں روضہ رسولؐ پر حاضری دی ، اور یوں گویا ہوئے : نانا جان مدرسہ کی زمین کا بیعانہ دے آیا ہوں اب میرے پاس ادائیگی کے لیے اور کچھ بھی نہیں ، کچھ نظر کرم فرمائیے۔ دعا کے بعد روضہ رسول ؐ سے باہر آئے
اور پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے کہ ایک شخص پاس آیا اور بولا حضرت کوئی پریشانی ہے تو بتائیے ؟ آپ نے پہلے تو جواب دیا کچھ نہیں بس یونہی ۔۔ مگر پھر فوراً خیال آیا ابھی ابھی روضہ رسول پر عرضی ڈال کر آیا ہوں ، اسی اثناء میں اس شخص نے دوبارہ پوچھا حضور کوئی پریشانی لاحق ہے تو بولیے ، آپ نےسارا ماجرا بیان کردیا ، وہ شخص آپ کو وہیں رکنے کا کہہ کر چلا گیا کچھ دیر بعد لوٹا تو نقد رقم اس کے ہاتھ میں تھی جو اس نے آغا سید بدیع الدین کے حوالے کردی ۔ اور یوں کالی کملی والے نے اس مدرسے کی زمین کے سودے کی ادائیگی میں اپنا حصہ ڈال دیا اور رقم ادائیگی کا بندوبست ہو گیا ۔2013 میں جب بحریہ ٹاؤن کا آغاز ہوا تو اس علاقے میں موجود گاؤں گوٹھ بکنا شروع ہوئے ، جسکی جو قیمت لگی اس نے وصول کی اور اراضی بحریہ ٹاؤن والوں کو بیچ کر چلتا بنا ۔ مگر پہلے روز سے آغا سید بدیع الدین کا مدرسہ اپنی جگہ پر قائم رہا ، اور آخر تک انکار ہی رہا ، لالچ ، دھمکی ۔ منت سماجت ہر حربہ آزمایا گیا مگر آغا صاحب نے مدرسہ کی زمین بیچنے سے انکار کردیا ۔مدرسہ کی اراضی کے حصول کے لیے رقم کی پیشکش کروڑوں سے شروع ہوئی اور اربوں تک جا پہنچی ، مگر آغا صاحب نے انکار کردیا ۔ بحریہ ٹاؤن یہ جگہ کیوں نہ لے سکا ، آغا سید بدیع الدین نے مدرسے کی یہ اراضی فروخت کیوں نہ کی ؟
یہ عقدہ بعد میں کھل گیا ،آخری بار جب پولیس کی بھاری نفری نے بلڈوزروں اور ٹریکٹروں سمیت مدرسہ گرانے کے لیے اس علاقے کا گھیراؤ کیا تو آغا سید بدیع الدین نے ایک جملہ کہا تھا ، ” ہم اہل بیت ازل سے مظلوم رہے ہیں اور ہمیشہ مظلوم رہیں گے اسی میں ہماری بھلائی اور کامیابی ہے ” ایک روز آغا صاحب کو پیغام ملا کہ ملک ریاض ملنا چاہتے ہیں ، سیکورٹی وجوہات کی بناء پر وہ خود نہیں آسکتے اگر آپ مہربانی کریں اور دفتر تشریف لے آئیں تو بہتر ہو گا ۔ آپ نے حامی بھر لی اور ملک ریاض کے دفتر بحریہ ٹاؤن تشریف لے گئے ، جب ملاقات ہوئی تو ملک ریاض نے پوچھا جناب آپ کیا چاہتے ہیں ۔ آغا صاحب بولے جناب آپ نے بلایا ہے آپ بتائیے آپ کیا چاہتے ہیں ۔ ملک ریاض نے کہا ہمیں اپنے ٹاؤن کے لیے آپ کی زمین درکار ہے ، اس کی جو قیمت کہیں گے ہم ادا کرنے کو تیار ہیں ، آغا صاحب نے کہا حضور اگر آپ ایک انچ کے بدلے ایک کروڑ روپے بھی دیں تو ہم یہ زمین فروخت نہیں کریں گے البتہ اگر زبردستی لینا چاہیں تو ہم مسکین لوگ ہیں کاندھے پر چادر رکھیں گے اور چل دیں گے یہ زمین آپ کو مبارک ہو، یہ سن کر ملک ریاض کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے ، آغا صاحب ، ہمارا اب اس زمین پر کوئی دعوٰی نہیں ، ہمیں یہ زمین نہ اب چاہیے نہ آئندہ کبھی آپ کو شکایت ہو گی۔ یوں 5 سال سے جاری کشمکش کا 5 منٹوں میں خاتمہ ہو گیا ، یہ مدرسہ پوری آب وتاب کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم ہے اور اب بحریہ ٹاون کی جانب سے مدرسے کو فلٹر شدہ پانی اور بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے