اسلام آباد

وزیراعظم آفس نے اپنی ہی کفایت شعاری پالیسی روند ڈالی


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)پوری حکومت کیلئے کفایت شعاری کی پالیسی منظور کرنے والا وزیراعظم آفس اسی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور اپنے ہی ملازمین کو اعزازیہ دینے میں ملوث پایا گیا ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ وزیراعظم آفس نے مالی سال 2022-23ء کے دوران آپریشنل اخراجات کے حوالے سے کفایت شعاری کے اقدامات پر عمل نہیں کیا۔
جب آڈٹ حکام نے وضاحت کیلئے وزیراعظم آفس سے رجوع کیا تو مؤخر الذکر نے کفایت شعاری کے اقدامات اور باضابطہ انداز سے اعزازیہ کی ادائیگی کے معاملے پر جواب تک دینا گوارا نہ کیا۔
’’15 فیصد کٹوتی کے حساب سے کفایت شعاری کے اقدامات کے عدم نفاذ‘‘ کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 27.02.2023 کے فنانس ڈویژن کے مراسلے کے پیرا (iii) میں کہا گیا ہے کہ سرکاری میٹنگز اور ایونٹس میں کھانا ہو تو صرف ایک ڈش جبکہ دیگر مواقع پر صرف چائے اور بسکٹ پیش کیا جائے گا۔
فنانس ڈویژن کے پیرا (iv) مورخہ 27.02.2023 کے خط میں کہا گیا ہے کہ تمام وزارتوں، ڈویژنوں، منسلک محکموں، ماتحت دفاتر، خود مختار اداروں وغیرہ کے موجودہ اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی (سالانہ بنیادوں پر) کی جائے گی۔
وزیر اعظم آفس (انٹرنل) کی انتظامیہ نے مخصوص ہیڈ آف اکاؤنٹس پر خرچ کیا، آڈٹ نے مشاہدہ کیا کہ انتظامیہ نے آپریشنل اخراجات کے حوالے سے کفایت شعاری کے اقدامات پر عمل نہیں کیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انتظامیہ نے اس ضمن میں کوئی جواب نہیں دیا۔ آڈیٹرز نے فنانس ڈویژن سے اضافی اخراجات کو ریگولرائز کرنے کی سفارش کی ہے۔
آڈٹ رپورٹ میں حد سے زیادہ اعزازیے کی بے قاعدہ ادائیگی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ فنانس ڈویژن کے خط نمبر F.1(1) Exp-II/2022-22 مورخہ 27.01.2022 میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ہدایت کی تھی کہ وفاقی کابینہ کی منظوری حاصل کرنے تک کوئی فورم (فنانس ڈویژن/ چیئرمین اقتصادی رابطہ کمیٹی) وفاقی حکومت کے ملازمین کو ایک مالی سال کے دوران ایک بنیادی تنخواہ سے زیادہ اعزازیہ دینے کی منظوری نہیں دے گا۔
وزیراعظم آفس (انٹرنل) کی انتظامیہ نے مالی سال 2021-23ء کے دوران اپنے ملازمین کو اعزازیہ کی ادائیگی کیلئے 10 کروڑ 89 لاکھ 4 ہزار510 روپےکے اخراجات درج ذیل تفصیلات کے مطابق کیے: آڈٹ میں مشاہدہ کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کے ملازمین و افسران کو اعزازیے کی مد میں سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ رقم ملی۔
آڈٹ کا خیال ہے کہ ملازمین و افسران کو سالانہ ایک سے زیادہ اعزازیے کی ادائیگی پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کو تفویض کردہ اختیارات کی خلاف ورزی تھی۔ اس حوالے سے آڈیٹرز کو انتظامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
آڈیٹرز نے فنانس ڈویژن کے ملازمین و افسران کو سالانہ ایک سے زیادہ اعزازیہ کی ادائیگی کو باقاعدہ بنانے یا بے قاعدگی سے ادا کی گئی رقم واپس لینے کی سفارش کی ہے۔
آڈیٹر جنرل رپورٹ میں وزیر اعظم آفس کی جانب سے مسابقتی انداز اختیار کیے بغیر دواؤں کی خریداری کے معاملے پر بے قاعدہ اخراجات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کے قاعدہ 8 کے تحت تمام پروکیورنگ ایجنسیاں تمام مجوزہ خریداری کیلئے مفصل منصوبہ بندی کا ایک طریقہ کار وضع کریں گی جس کا مقصد پروکیورنگ ایجنسی کی ضروریات، اس کے دستیاب وسائل، ترسیل کے وقت یا تکمیل کی تاریخ، اور فوائد (جو مستقبل میں پروکیورنگ ایجنسی کو حاصل ہونے کا امکان ہے)کا حقیقت پسندانہ تعین کرنا ہے۔
پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کے قاعدہ 12(1) میں کہا گیا ہے کہ پانچ لاکھ روپے سے زیادہ اور 30لاکھ پاکستانی روپے کی حد تک کی خریداریوں کو پیپرا کی ویب سائٹ پر ضابطے کے ذریعے بیان کردہ طریقے اور فارمیٹ میں مشتہر کیا جائے گا۔ اگر پروکیورنگ ایجنسی کی طرف سے ضروری سمجھا جائے تو خریداری کے ایسے معاملات کو پرنٹ میڈیا میں بھی مشتہر کیا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم کے دفتر (انٹرنل) (ڈسپنسری IB-0912) کی انتظامیہ نے دواؤں کی خریداری پر 2020-23ء کے دوران ہیڈ نمبر A-03927 کے تحت 78؍ لاکھ 95؍ ہزار 680؍ روپے خرچ کیے۔ آڈیٹرز نے مشاہدہ کیا کہ خریداری مسابقتی ماحول کو یقینی بنائے بغیر کی گئی۔
آڈیٹرز کا خیال ہے کہ سالانہ ٹینڈرنگ کے ذریعے مسابقتی نرخوں کا حاصل نہ کرنا پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کی خلاف ورزی ہے جس سے غلط خریداری ہوتی ہے۔ اس ضمن میں انتظامیہ نے آڈیٹرز کو کوئی جواب نہیں دیا۔ رپورٹ میں بے ضابطگی روکنے اور فنانس ڈویژن سے اخراجات کو ریگولرائز کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

متعلقہ خبریں