’حکومت ترمیم نہیں آئین کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے‘، حکومتی فیصلے پر لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)آئینی ترامیم پرنمبرزگیم کا دلچسپ کھیل جاری ہے۔ حکومت تاحال آئینی ترامیم وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ میں پیش نہیں کر سکی۔ حکومت کو اس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ تاہم اس وقت حکومت کے پاس آئینی ترمیم کو منظور کروانے کے لیے مطلوبہ تعداد نہیں ہے۔
تحریک انصاف نے ان اصلاحات کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم خاص طور پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے ہے، تحریک انصاف کبھی اسے قبول نہیں کرے گی تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تاثرغلط ہے کہ ترامیم کسی خاص شخصیت کے لیے ہیں۔
کئی دنوں سے زیر بحث آئینی ترمیمی بل کے مسودے میں مجموعی طور پر 43 تجاویز شامل کی گئی ہیں جن میں ججوں کے حوالے سے انتہائی اہم تجاویز اور آرمی ایکٹ کا آئینی تحفظ بھی شامل ہے۔ ترمیمی بل کے تحت ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔
اعلیٰ عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی خوب بحث چل رہی ہے اور صارفین اس پر مختلف تبصرے کر رہے ہیں۔
اتوار کے دن متعدد بار قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کے اوقات میں تبدیلی کی جاتی رہی۔ اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کا مشاورت کا عمل بھی جاری رہا۔ اس پر ایک سوشل میڈیا صارف سیف اعوان نے سوال اٹھایا کہ آئینی ترمیم کل کیوں نہیں منظور ہوئی؟ ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم پہلے کابینہ سے منظور ہونی چاہیے تھی، پھر حکومت اتحادیوں کو اعتماد میں لیتی اور پارلیمنٹ میں اس پر بحث کرواتی اور پھر متفقہ طور پر منظور کرتی لیکن حکومت بغیر ترامیم دکھائے حمایت چاہتی ہے تاہم جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما مسرت چیمہ لکھتی ہیں کہ حکومت آئین میں ترمیم نہیں بلکہ آئین کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔ آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی جا رہی ہے جس سے ہارس ٹریڈنگ کو آئینی تحفظ فراہم کیا جا رہا یے. یعنی منتخب نمائندہ ضمیر بیچے گا یا نمائندوں کے اہل خانہ کو اغوا کر کے یا منتخب نمائندوں کو اغوا کر کے وفاداریاں تبدیل کروا کے ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں تو وہ ووٹ شمارہوں گے۔
صحافی ثاقب بشیر نے لکھا کہ حکومت 40 سے زائد ترامیم کرنے کے لیے تیار ہے۔ کیا تمام پارلیمنٹیرینز نے یہ ترامیم ایک دفعہ دیکھیں یا پڑھیں بھی ہیں کہ یہ کتنی غیر معمولی ہیں؟ پورا سسٹم اسٹرکچر تبدیل کرنے لگے ہیں، عدلیہ خاص طور پر سپریم کورٹ کو غیر موثر کرنے لگے ہیں۔ کیا کل ان جماعتوں نے کبھی بھی اپوزیشن میں نہیں جانا ؟ اتنا بڑا دھبہ نہ لگائیں جو سنبھل ہی نہ سکے۔
عبید بھٹی نے آئینی ترامیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ ترامیم اس قدر خطرناک اور ہولناک ہیں کہ اگر پاس کروا لی گئیں تو پاکستان پریکٹیکلی میانمار اور شمالی کوریا بن جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم حیدر پنجوتھہ لکھتے ہیں کہ یہ ترامیم تباہ کن ہیں، وفاقی آئینی عدالت نے جس مقصد کو فوری طور پر حاصل کرنے کی کوشش کی ہے وہ قاضی کے ذریعے پی ٹی آئی پر پابندی لگانا اور اس کے ذریعہ منتخب کردہ ججز ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے 1973 کے آئین میں اب تک 25 مرتبہ ترامیم ہوچکی ہیں۔ آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، یعنی قومی اسمبلی میں 224 ووٹ اور سینیٹ میں 64 ووٹ۔
اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں 214 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو 10 مزید ووٹ درکار ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں حکومت کو ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق حکومت سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ججوں میں سے چیف جسٹس لگائے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا انتخاب 3سینیئر ججوں کے پینل میں سے ہوگا۔
مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت قائم کی جائے گی۔ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ججوں کی تقرری جوڈیشل کمیشن اورپارلیمانی کمیٹی کرے گی۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو ایک کیا جائے گا، آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی جائے گی، منحرف ارکان کے ووٹ کی شق بھی مجوزہ ترامیم کا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافے کی ترمیم بھی شامل ہے، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھا کر 81 کرنے کی تجویز ہے۔