اوورسیز پاکستانی ڈومیسائل نہ ہونے کی وجہ سے کن مسائل کا شکار ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)برسوں سے بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن کثیر زرمبادلہ بھیجتے ہیں جس کا اندازہ سینیٹر عرفان صدیقی کے سینیٹ میں دیے گئے اس بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے سمندر پار پاکستانیوں کی جائیداد کے تحفظ کے بل کو سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ایک اچھا قدم قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں نے 3 ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر ملک میں بھیجی ہیں۔
لیکن سعودی عرب میں رہنے والے پاکستانیوں کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے اور اس حوالے سے وہ شکوہ کناں بھی ہیں۔
برسوں سے تارکین وطن کی سہولت اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے ادارے اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کو ایک ’سفید ہاتھی‘ قرار دیتے ہوئے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ ان کی مشکلات حل کرنے کے بجائے مزید پریشانیوں کا سبب بنتا ہے۔
سعودی عرب میں پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
واضح رہے کہ سعودی عرب میں رہنے والوں کو انٹرمیڈیٹ کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے پاکستان یا کسی اور ملک کا رخ کرنا ہوتا ہے۔ ضوابط کے مطابق پاکستان میں تعلیم کے حصول کی خاطراوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کے ممبران کے لیے تمام جامعات میں سیٹیں مخصوص کی گئی ہیں۔ مگر سعودی عرب میں رہنے والے پاکستانی کہتے ہیں کہ یہ ضوابط صرف لفظوں تک ہی محدود ہیں کیونکہ ان کے بچے میرٹ پر ہونے کے باوجود ڈومیسائل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
سعودی عرب میں کئی برسوں سے مقیم ایک پاکستانی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ ان کا تعلق کراچی اور اہلیہ کا خیبرپختونخوا سے ہے جبکہ ان کا آبائی گھر راولپنڈی میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں میرٹ پر آئی ہے لیکن یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ ڈومیسائل کے بغیر اس کا وہاں داخلہ ممکن نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کا کوٹہ کہاں گیا اور اب ڈومیسائل کا کیا کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اوورسز پاکستانیوں کا تو کوئی ڈومیسائل نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ برسوں سے پردیس میں رہنے والوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ڈومیسائل کی شرط ہے جس سے ان کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے وہ نہ تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کے قیام کے وقت اس کے منشور میں بہت کچھ درج کیا گیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی کسی ایک شق پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بات جب تارکین کےحقوق کی آتی ہے تو یہاں ذمہ داران خود کو بے بس ظاہر کرتے ہوئے اپنی مجبوریوں کی داستانیں بیان کرنے لگ جاتے ہیں اور یہ کہہ کرمعذرت کرلیتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں بے بس ہیں۔
بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں جب اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کے دفتر رجوع کیا گیا تو ذمے داران کا کہنا تھا کہ ہم ڈومیسائل سسٹم کے پابند ہیں اور بچے کا ڈومیسائل جس صوبےکا ہوگا وہیں داخلہ ملے گا۔
ڈومیسائل کی شرط کس لیے، فاؤنڈیشن بے بس کیوں؟
وال یہ ہے کہ جب بیرون ملک رہنے والوں کا کوٹہ مقرر ہے تو ڈومیسائل کی شرط کیوں ہے اور یہاں اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کیوں بے بس ہے؟
اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن مہیش کمار نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تمام جامعات میں اوورسیز کوٹے کی کوئی پالیسی نہیں ہے جن یونیورسٹیوں نے اوورسیز کوٹہ مقرر کیا ہوا ہے ان کی لسٹیں اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ان تمام یونیورسٹیوں نے اووسیز کوٹہ مقرر کیا ہوا ہے جنہیں فاؤنڈیشن کا سرٹیفکیٹ درکار ہوتا ہے باقی تمام جامعات کی جو بھی ڈیمانڈز ہیں ان کا اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن نے جب ہائر ایجوکیشن کمیشن سے اس حوالے سے بات کی تو اس نے اپنے جوابی لیٹر میں یہ کہا کہ باوجود اس کے کہ وہ کوٹہ کے حق میں نہیں ہیں پھر بھی اگر یونیورسٹیاں اپنے طور پر اگر ریزرو سیٹیں رکھتی ہیں تو ایچ ای سی کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ باقی میڈیکل یونیورسٹیوں کی ساری پالیسیاں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل بناتی ہے۔
اسلامک یونیورسٹی میں اسلامی شریعہ اینڈ لا کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبہ نمرہ اشفاق نے وی نیوز کو بتایا کہ جب ان کو سعودی عرب سے پاکستان تعلیم کے حصول کے لیے آنا تھا تو وہ آرکیٹیکچرنگ کی ڈگری حاصل کرنا چاہتی تھیں جس کے لیے انہوں نے 2 یونیورسٹیاں مارک کی ہوئی تھیں لیکن دونوں نے ہی انہیں مختلف دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے داخلہ نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک تو میرا تعلق کراچی سے تھا اور یونیورسٹی کو اس شہر کا ڈومیسائل چاہیے تھا اور اس کے علاوہ بھی پتا نہیں کون کون سے سرٹیفکیٹس کی ضرورت تھی لیکن اسلامک یونیورسٹی میں داخلے کے لیے اتنی مشکل نہیں ہوئی۔انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹیوں کی حد سے زیادہ کاغذی ڈیمانڈ نے میری یہ ڈگری حاصل کرنے کی خواہش کا گلا گھونٹ دیا۔
نمرہ اشفاق نے کہا کہ اس وقت ہمیں اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کے بارے میں بھی اتنا علم نہیں تھا جس کی وجہ اس ادارے کا بیرون ملک مقیم پاکستانی طلبہ اور ان کے والدین کے ساتھ رابطے میں نہ رہنا ہے۔
صرف تعلیمی مسائل کے علاوہ پاسپورٹ سمیت دیگر بہت سے مسائل پاکستانی برداشت کر رہے ہوتے ہیں اور کسی بھی ادارے سے رابطہ کیا جائے تو وہ معاملات کو اتنا مشکل بنا دیتے ہیں کہ ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ ان سے مدد نہ ہی لی جائے۔