گھر بند ہیں اور برتن بھی ٹوٹے ہوئے ہیں ۔۔ جانیں پاکستان کے اس پر اسرار گاؤں کے بارے میں جہاں لوگ تو نہیں رہتے مگر گھر موجود ہیں؟

چولستان (قدرت روزنامہ)انسان کو خوف تو ضرور محسوس ہوتا ہے کہ جب وہ ایک دم سے دیکھے کہ پورا کا پورا گاؤں ہی خالی ہے اور گھروں کو تالے لگائے گئے . ماجرا یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صحرا چولستان کے گاؤں دین گڑھ کے سارے گھر مسجد سمیت بند کر دیے گئے ہیں .

یہ گاؤں بہاولپور شہر سے 70 کلو میٹر دور ہے جبکہ پاکستان اور انڈیا کے بارڈر پر قریب واقع ہے . ایک پاکستانی یوٹیوبر نے جب اس ویڈیو کو اپنے چینل پر اپلوڈ کیا تو لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا ہو گیا اور ہو بھی کیوں نہ کیونکہ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ہر گھر میں تالے لگے ہیں نہ ہی کوئی جانور ہے اور نہ ہی کوئی انسان . سب سے زیادہ ڈر تو اس وقت پیدا ہوا جب دیکھا گیا کہ ٹوٹے ہوئے مٹی کے برتن پڑے ہوئے ہیں . حیرت ہوئی کہ پتہ نہیں یہاں ہوا کیا ہے آخر لیکن اسی یوٹیوبر نے کچھ ماہ بعد اسی گاؤں میں ایک ویڈ یو بنائی جس میں سے اس راز پر سے پر دہ اٹھ گیا کہ سارے گھر لوگوں نے ایک ساتھ کیوں خالی کر دیے تھے تو وہاں موجود ایک بچے نے بتایا کہ ہم سارے گاؤں والوں کو مسئلہ یہ ہے کہ یہاں گرمی بہت ہوتی ہے اور جب بارش نہ ہو تو پینے کا پانی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ہم دوسرے علاقوں میں چلے جاتے ہیں . جس کی وجہ سے اس گاؤں سے خوف آتا ہے مگر اب بارش ہو گئی ہے تو ہم واپس اپنے گھروں کو آ گئے ہیں . بچے اور مزمل صاحب کا کہنا تھا یہاں ہم وہی پانی پیتے ہیں جو جانور پیتے ہیں اور پانی پینے جمع کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں یہی وجہ ہے کہ جو بارش کا پانی کھڈوں میں یا پھر ٹونبوں میں جمع ہوتا ہے تو ہم اسی سے پانی روز لے کر آتے ہیں . مزید یہ کہ انکے گھر کچے ہیں سمینٹ سے پلستر کروانے کی بجائے مٹی کی لپائی کی ہوئی اس وجہ سے جتنی مرضی گرمی ہو گھر بلکل ٹھنڈے رہتے ہیں . یہاں ایک بہت ہی خوبصورت چیز یہ ہے کہ گاؤں زیادہ ترقی یافتہ تو نہیں مگر شہر کی طرح رہن سہن ضرور ہے، مٹی کے ہی بیسن، بہترین کچن اور زیادہ گرمی میں کھانا بنانے کیلئے ٹھنڈے کچن . اگر جانوروں کی بات کریں تو یہاں ہر گھر کے باہر ایک تبیلہ نما جگہ ہے جہاں انہوں نے درخت کی چھوٹی بڑی لکڑیاں جمع کر کے اس تبیلے کا چھت بنایا ہے اور پھر اس پر گھاس ڈال دی ہے جس کی وجہ سے یہ بھی ٹھنڈے رہتے ہیں . صرف و صرف یہاں مسجد پکی بنائی گئی ہے . ان لوگوں کا گزر بسر یوں ہوتا ہے کہ شہر سے ہر صبح دودھ لینے کیلئے گاڑیاں آتی ہیں جو ان سے دودھ خرید لیتی ہیں . اس کے علاوہ یہ لوگ جانور بیچنے کا بھی کاروبار کرتے ہیں کم سے کم جانور 50 ہزار اور زیادہ سے زیادہ جانور 2 لاکھ کا بیچ دیتے ہیں انہی 2 طریوں سے انکی زندگی کا گزر بسر ہو رہا ہے . واضح رہے کے یہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں نہ تو پانی ہے نہ ہی بجلی اور نہ ہی سڑکیں ہیں بس اقتدار میں بیٹھنے والے لوگوں سے گزارش ہے کہ ہمیں بھی انسان سنجھا جائے . اور ہمیں سہولیات دی جائیں . بات بھی انکی صحیح ہے کیونکہ ملک آزاد ہوئے 70 سالوں سے زائد وہو چکے ہیں مگر یہ آج بھی پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں . . .

متعلقہ خبریں