گرین لائن، کے سی آر سمیت کراچی کے لیے کب کب کیا کیا پلاننگ ہوئی؟یہ پلاننگ کاغذات تک کیوں محدود رہی؟ اصل منصوبہ تھا کیا اور بنایا کیا گیا؟تمام حقائق سے پردہ اٹھ گیا
لاہور(قدرت روزنامہ)کراچی میں گرین لائن بس سروس مکمل طورپر فعال کی جارہی ہے۔ مجوزہ پانچ بس لائنوں یعنی اورنج، ریڈ، بلیو، یلیو اور گرین میں سے صرف ایک گرین بس لائن کا چلایا جانا بھی شہریوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ شہری یہ بھول گئے ہیں کہ جس منصوبے کا آغاز سن 2016 کےنواز دور میں کیا گیا تھا، عمران دور میں وہ دُگنی قیمت پرتیار ہواہے۔
نسیم حیدر لکھتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ دسمبر سن2012 میں جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی یعنی جائکا کی جانب سے تیار پہلی فزیبلیٹی رپورٹ میں یہ سفر سُرجانی سے ٹاور تک رکھا گیا تھا یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ شہر کے مختلف علاقوں سے لوگ سب سے زیادہ سفر صدر، سائٹ صنعتی ایریا، کورنگی اور لانڈھی صنعتی علاقوں کی جانب کرتے ہیں۔پہلے ماسٹرپلان میں یہ تخمینہ بھی لگایا گیا تھا کہ سن 2023 تک کراچی میں شہری علاقوں کارقبہ دگنا ہوجائے گا، گڈاپ ٹاون، بن قاسم ٹاون اور کیماڑی ٹاون میں آبادی کی شرح غیرمعمولی تیزی سے بڑھے گی۔ ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بس سروس کی ایک سمت میں ہرگھنٹے 43 ہزار افراد کوسفری سہولت دینے کا پلان بنایاگیاتھا۔ موجودہ حکومت اسے کم کرکے 29 ہزار 400 پر لے آئی ہے مگر ماس ٹرانزٹ کو ترسے کراچی والے سجدہ شکر ادا نہ کریں تو کیا کریں۔جاپانی ماہرین نے گرین لائن بس سروس کا یہ ماسٹرپلان شہر کی خوفناک حد تک بڑھتی آبادی کو درپیش ٹریفک مسائل پیش نظر رکھ کر بنایا تھا۔ عام طورپر ماس ٹرانزٹ کے ایسے بڑے اور پوے شہر کا احاطہ کرنے والے منصوبے ریلوے لائن کے متبادل کے طورپر بنائے جاتے ہیں۔ شاید یہی سوچ کر حکومت نے گرین لائن بس سروس کو شہریوں کے لیے سال نو کا ایسا تحفہ تصور کرلیا کہ کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ مکمل بحال کرنے کے بجائے اُسے برائے نام شروع کرکے اپنی تختی لگا دی۔20 سال بعد بحالی اوراس کے لیے بھی دو ٹرینیں، سونے پہ سہاگہ جو چلیں بھی دن میں دو بار۔ یعنی اپنا منہ سپریم کورٹ کو دکھانے کے قابل بنانے کی حکومتی کوشش۔
دلچسپ بات یہ کہ جائکا ہی نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے بھی جائزہ رپورٹ تیار کی تھی۔ فروری سن 2013 میں تیار اس رپورٹ میں ابتدائی طورپرچار چار بوگیوں والی پچیس ٹرینیں بجلی کی مدد سے چلانے کا منصوبہ تھا۔ ٹکٹ خود کار نظام کے تحت ہونا تھا جس سے شہری قطاروں میں لگنے کی زحمت سے بچتے۔ 43 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار سے چلنے والی وہ ٹرینیں ہر چھ سے آٹھ منٹ بعد منزل پرروانہ ہونا تھیں۔سرکلر ریلوے کی بحالی میں فنڈز کی کمی اور سرخ فیتے کا حائل ہونا اپنی جگہ ، بھلا ہو قبضہ مافیا کا جس نے ہزاروں تجاوزات بنا کر کے سی آر کی راہ میں ایسی دیوار حائل کر رکھی ہے کہ جسے ڈھانا سندھ حکومت کے لیے بھی امتحان ہے۔گرین لائن بس سروس کا آغاز ہو یا کے سی آر کی نام نہاد بحالی، کراچی میں جاپان کے قونصل جنرل توشی کازو ایسو مورا نے بس اور ٹرین دونوں کے سفر کا مزہ لیا۔ تعریفیں کیں اور مستقبل میں مزید بہتری کے آثار دیکھے۔ یہ ممکن نہیں کہ جاپانی سفارتکار کے ذہن میں دونوں منصوبوں سے متعلق جائکا کی رپورٹیں نہ آئی ہوں۔ آخر جاپان اپنے پراجیکٹس کے حوالے سے دنیا بھر میں نام رکھتا ہے، چیزوں کے پائیدار ہونے کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جاپان کا آکاشی کائیکو پل بنانے والوں نے اس اوورہیڈ بریج کی عمر دو سو سال رکھی ہے اور تعمیر کے بیس برس صرف پینٹ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ جب کہ یہاں 20 سال پہلے بنائے جانیوالے پلوں کی بیسیوں بار مرمت ہوچکی ہے۔