مہنگائی کی وجہ سے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے شوہر کے ساتھ مل کر برگر کا اسٹال لگایا ہے ۔۔ گھر کا کھانا بیچنے والے کچھ ایسے وائرل افراد جن کے کھانوں نے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)مہنگائی نے اس وقت لوگوں کی کمرتوڑ دی ہے، ہر چیز کے دام آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں ۔ ایسے میں جب پٹرول کی قیمت بڑھی تو لوگ دال، چاول، روٹی کے بھی محتاج ہوگئے ایسے وقت میں ایک فیملی کے گزارے کے لئے کم سے کم بھی 50 ہزار روپے کی ضرورت ہے کہ جس میں وہ اپنے گھر کا کرایہ بھی دے سکے، بچوں کی اسکول کی فیس بھی چلی جائے اور گھر کی دال روٹی بھی چلتی رہے۔ مہنگائی اور پھر بیروزگاری ان دونوں چیزوں نے مل کر ایک متوسط طبقے کے فرد کو بھی گھر چلانے کے لئے منہ چھپانے اور قرض ادھار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ایسے میں بہت سے ایسے گھرانوں کی عورتیں اور مرد اس بات پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ گھر سے نکل کر کوئی اور کام کریں جس سے ان کا گھر چل سکے۔ یہاں ہم آپ کے لئے ایسے ہی کچھ محنت کش لوگوں کی کہانی لائے ہیں جنہوں نے حالات سے مجبور ہوکر بھیک مانگنے کے بجائے محنت کرنے کو ترجیح دی اورآج اس معاشرے میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔

باجی دال چاول والی:
باجی دال چاول والی کے نام سے مشہورنازیہ ایک سنگل مدر ہے جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے دال چاول کا ٹھیلا لگانے پر مجبور ہوگئیں۔ یہ کراچی میں میلینئیم شاپنگ مال کے سامنے گلشنِ جمال میں دال چاول کا ٹھیلا لگاتی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ میں ایک اچھے برانڈ کی کمپنی میں نوکری کرتی تھی لیکن وہاں تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ وہ میرے گھر کا خرچہ پورا کرسکتی ، میں پریشان تھی کہ کیا کروں ،پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے خود ہمت کرنی ہوگی اور کوشش کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہوگا۔ اسی لئے میں نے یہ اسٹال لگایا ، میں صبح 9،10 بجے یہاں آجاتی ہوں اور 4 بجے تک واپس چلی جاتی ہوں، میں نے اپنی بائیک لی ہوئی ہے، جسے میں خود چلاتی ہوں، پہلے مجھے سائیکل بھی چلانی نہیں آتی تھی لیکن میں نے اب بائیک چلانا سیکھی اور شاہ فیصل سے اس بائیک پر کھانے کے پتیلے رکھ کر میں لاتی ہوں، اگر فوڈ ڈیلیوری ہوتو وہ بھی خود ہی کرتی ہوں کیونکہ میرے پاس ابھی اتنے وسائل نہیں کہ رائیڈر رکھوں اور اس کو تنخواہ دوں۔ یہاں میں دال چاول، اچار، سلاد اور پاپڑ کی ایک پلیٹ 100 روپے میں دیتی ہوں، یہاں زیادہ تر رکشے والے، چنگچی والے آتے ہیں تو 100 روپے میں وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتے ہیں۔ میری زندگی اس وقت جدوجہد سے بھرپور ہے میں یہاں سے گھرجاکردوسرے دن کے پکانے کے لئے سامان لاتی ہوں ، گھر کے سارے کام کاج کرتی ہوں اس کے بعد 10،11 بجے تک سو جاتی ہوں پھر رات کو 3 بجے اٹھ کرپکانے کا کام شروع کر دیتی ہوں ، صبح 7 بجے بچوں کو اسکول بھیج کر گھر کی صفائی ستھرائی کر کے 9 بجے تک یہاں آجاتی ہو۔ ابھی یہ سخت وقت ہے لیکن مجھے امید ہے کہ انشاءاللہ اسی ٹھیلے سے آگے بڑھ کر میں اپنا ریسٹورنٹ کھولوں گی۔

آنٹی برگر والی:
آنٹی برگر والی کے نام سے برگر کا اسٹال لگانے والے دونوں میاں بیوی ہیں ۔ یہاں موجود خاتون لبنٰی رحیم کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے گھر کا گزارہ کرنا ناممکن ہوگیا تھا، اس لئے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے میں نے سوچا کہ ہم دونوں میاں بیوی کو مل کر محنت کرنی ہے۔ اگر میں کہیں اور نوکری کرتی تو مجھے سو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا لیکن یہاں میں اپنے شوہر کے ساتھ محفوظ اور مطمئن ہوں۔ یہاں ہمیں دو سال ہوگئے ہیں ،ہم رات میں یہاں سے جانے کے بعد دوسرے دن کے لئے تیاری کرتے ہیں سوتے سوتے ہمیں 12،1 بج جاتے ہیں لیکن ہم خوش ہیں کہ ہمیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے یہ کرنا پڑا، ہمیں امید ہے کہ انشاءاللہ آگے سب اچھا ہوگا۔


فرنچ فرائز والی خاتون:
فرئیرہال کراچی پرفرنچ فرائز،سموسے اور پکوڑے کا اسٹال لگانے والی اریبہ دو بچوں کی ماں ہیں۔ یہ بھی سنگل مدر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میں نے شیف کے کورسز بھی کئے ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ ایک ہسپتا میں کچن میں کام کرتی تھی پھر ایک بیکری میں بھی کام کیا ۔ لیکن جاب میں کافی مسئلے مسائل تھے تو میں نے اپنا کام شروع کیا ، یہاں بھی لوگ مذاق تو اڑاتے ہیں کہ لیڈیز ہو کر یہاں مردوں میں کام کررہی ہیں لیکن میں ان باتوں پر کان نہیں دھرتی۔ پہلے میں رکشے پر آتی تھی لیکن اب میں نے بائیک لے لی ہے تو اس پرآتی ہوں اپنا سامان وغیرہ اسی پر رکھ کر لے آتی ہوں۔ فیڈرل بی ایریا سے فیرئیرہال آتی ہیں۔ پہلے انہوں نے گھر سے کام شروع کیا لیکن اس میں بچت نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے ان کو یہ قدم اٹھانا پڑا۔ تن تنہا بچوں کی کفالت اور پھر مردوں کے اس معاشرے میں عورتوں کا اس طرح کے کام کرنا لوگ اتنی آسانی سے قبول نہیں کرتے، لیکن ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ میں یہاں سے جاکربچوں کے کپڑے سیل کرتی ہیں۔ تاکہ اپنے اخراجات پورے کرسکوں۔

اسی طرح ہمارے اردگرد سینکڑوں کہانیاں بکھری پڑی ہیں جس میں حالات سے مجبور ہوکراچھے اچھے گھرانوں کے افراد اس طرح ٹھیلا یا اسٹال لگانے پر مجبور ہوگئے لیکن ہمت نہیں ہاری ،اور آج اپنے پیروں پر کھڑے ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کی مدد کرنی چاہیے اور ان کوسپورٹ کرنا چاہیے تاکہ لوگ خودکشیوں پر مجبور نہ ہوں۔