شناخی کارڈ کون جاری کرے گا؟ وزیر داخلہ کے دورہ نادرا کے بعد کنفیوژن
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیر داخلہ محسن نقوی کے دورہ نادرا کے بعد یہ کنفیوژن پیدا ہوگئی ہے کہ قومی شناختی کارڈ کے اجرا وتجدید کا کام کون کرے گا۔
وزارت داخلہ کی جانب سے یونین کونسلز کی سطح پر قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) بنانے اور تجدید کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے اس بیان کی تردید کردی گئی۔
نادرا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یونین کونسل کی سطح پر شناختی کارڈ جاری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ جمعہ کو نادرا ہیڈکوارٹر میں وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے بعد یہ غلط فہمی پیدا ہوئی۔
وزارت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وزیر داخلہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں عوام کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے متعدد فیصلے کیے گئے جس میں ملک بھر میں یونین کونسل کی سطح پر قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ بھی ہوا، جب کہ اس کام کے لیے یونین کونسل میں بائیو میٹرک مشینیں بھی لگائی جائیں گی۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق اجلاس کے دوران وزیر داخلہ محسن نقوی نے یونین کونسل کی سطح پر شناختی کارڈ کی سہولت فراہم کرنے سے متعلق لائحہ عمل بنانے کی ہدایت دی۔
تاہم، اجلاس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد نادرا کی جانب سے واضح الفاظ میں اس بیان کی تردید کردی گئی کہ یونین کونسل کی سطح پر شناختی کارڈ کے اجرا و تجدید کا کوئی منصوبہ نہیں۔
نادرا حکام نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس کے دوران وزیر داخلہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ عوام کو یہ سہولت مہیا کی جائے لیکن اس حوالے سے حکام کی جانب سے کوئی وعدہ نہیں کیا گیا کیوں کہ ملک بھر کی 8 ہزار یونین کونسل میں یہ سہولت فراہم کرنا ناممکن ہے۔
پہلے سے کام کے بوجھ تلے دبی یونین کونسل کس طرح شناختی کارڈ کی فراہمی یقینی بنائے گی؟ اس سوال کے جواب میں حکام نے بتایا کہ وزیرداخلہ کو توقع تھی کی کہ ہم اس کام کے لیے اپنے لوگ بھی فراہم کریں گے۔
حکام نے مزید کہا کہ اس کام کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل درکار ہوں گے، جس میں ہارڈویئر کی خریداری اور ان تمام مقامات کو نادرا سسٹم سے لنک کرنے سمیت نئے لوگوں کی ٹریننگ وغیرہ شامل ہے۔
نادرا حکام کا کہنا تھا کہ قومی شناختی کارڈ کے اجرا وتجدید کے عمل کا آغاز چند یونین کونسل سے مرحلہ وار کیا جاسکتا ہے۔
وزارت داخلہ کا مؤقف حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم وہ فوری طور پر جواب دینے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔