پنجگور(قدرت روزنامہ)نیشنل پارٹی ضلع پنجگور کے ترجمان نے گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں اسد اللہ سدوزئی اور علی مدد جتک کے درمیان تلخ کلامی اور نازیباء الفاظ کے استعمال کے رد عمل میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسد اللہ سدوزئی اور علی مدد جتک کے درمیان بے ہودہ اور غلط جملوں کے استعمال کوئی انہونی بات نہیں بلکہ مکافات عمل کا نتیجہ ہے کہاوت ہے کہ انسان جو بوتا ہے وہی اسے کاٹنے کو ملتی ہے اسداللہ سدوزئی پنجگور اور بلخصوص بلوچستان کے وہ سیاسی رہنماء جس کی زبان اور کردار سے کوئی محفوظ نہیں رہا ہے ہر کسی کواسداللہ سدوزئی نے اپنی زپریلی زبان سے تزلیل کرکے بلوچستان کی تاریخ میں انوکھا مثال قائم کی ہے الیکشن ہو سیاسی میدان میں جب بھی کسی نے اسداللہ سدوزئی کا مقابلہ کیا ہے انہوں نے اپنی بدزبانی سے انھیں مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے 1988 میں جب پیپلز پارٹی کے رہنماء صابر علی بلوچ انکے مدمقابل میں الیکشن میں کھڑے تھے تو اسی اسداللہ سدوزئی نے میر صابر علی بلوچ کو پنجابیوں کی اولاد قرار دیکر پکارے تھے 2018 میں جب بی این پی کے حاجی زاہد بلوچ انکے مقابلے میں کھڑے تھے تو انھیں عربوں کی ڈرائیور جمعیت کے حافظ اعظم بلوچ کو ملا طوفان حاجی عطاء اللہ بلوچ کو بلاک فروش حاجی یاسین زہری کو حاجی ٹینوک رحمت بلوچ کو کمپوڈر حاجی اسلام بلوچ کو ڈرائیور کے نام سے پکارتے تھے اور اپنی جلسوں میں ان قائدین کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے اور سردار عطاء اللہ مینگل جیسے قد آور شخصیت اور قومی رھشون کو بھی انہوں نے اپنی بدزبانی سے نہیں بچشاء ہے اسداللہ سدوزئی کو جب اپنی مد مقابل کے ایک بداخلاق شخص سے واسطہ پڑا ہے تو بیچارہ سدوزئی ولولہ اٹھا ہے حالانکہ جس زبان اور اخلاق سے انہوں نے بات کی ہے وہی زبان اور اخلاق سے انھیں جواب ملا ہے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے حالانکہ علی مدد جتک نے انھیں انکی ماضی کی یاد دھانی کی ہے کہ وہ اقتدار میں ہوتا ہے تو بھگی بلی کی طرح چھپ کر ہر ریاست جبر کے ہمنوا ہوتا ہے لیکن جب اقتدار اور وزارت نہیں ملتی ہے تو قوم پرستوں کے سب سے زیادہ وفا دار اور رہنماء بن جاتا ہے بلوچستان کے تمام مکتہ فکر کو اچھی طرح علم ہے کہ قدوس دور حکومت میں جب لاپتہ افراد کے لواحقین کویٹہ کے سڑکوں اپنی پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج کررہے تھے ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سمی دین بلوچ سمیت ماؤں بہنوں کے دوپٹے چھینے گئے اور جیلوں میں بند کیا گیا وہی قدوس حکومت میں اسداللہ سدوزئی صوبائی وزیر زراعت تھے لیکن موصوف ایک لفظ تک ادا کرنے میں کتراتے تھے مگر اب سب سے بڑا قوم پرست چیمپئین بن گیا ہے علی مدد جتک اور اسداللہ سدوزئی کے درمیان نوک جھوک صرف مکافات عمل کا نتیجہ ہے اس میں بلوچستان اور بلوچ قوم کا کوئی تعلق نہیں ہے بلوچستان اسمبلی میں علی مدد جتک اور اسداللہ سدوزئی کے درمیان تلخ کلامی کا نیشنل پارٹی کو کوئی وسطہ نہیں ہے یہ دونوں اپنی بدزبانی اور بداخلاقی کا زمہ دار خود ہیں نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے بلوچیت کے ناطے جزبات میں آکر جو مزمتی بیان جاری کی ہے نیشنل پارٹی کا ان مزمتی بیان سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ نیشنل پارٹی کے کارکنوں کی زاتی فعل ہے بلوچستان اسمبلی میں اس وقت ناسوروں کا غلبہ ہے اسداللہ سدوزئی اور علی مدد جتک کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے دونوں اپنی اپنی مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں اور بدنامی بلوچ قوم اور بلوچستان اسمبلی جیسے مقدس ادارے کا ہورہا ہے . .