کیا امریکا سرچ انجن ’گوگل‘ کی اجارہ داری ختم کرنا چاہتا ہے؟ موبائل صارفین کو اس سے کیا نقصان پہنچے گا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)امریکی محکمہ انصاف گوگل کے سرچ انجن کوغیرقانونی اجارہ دار قرار دے رہا ہے اور ایک وفاقی جج کے ذریعے اس کی یہ اجارہ داری ختم کرنے پرغور کر رہا ہے، یہ ان کئی ممکنہ طریقوں میں سے ایک ہے جن پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔
امریکا کی عدالت میں پیش کی جانے والی دستاویزات میں حکومتی وکلا نے متعدد ممکنہ اقدامات کا خاکہ پیش کیا جن میں گوگل کی مصنوعی ذہانت کی جانب سے سرچ رزلٹ فراہم کرنے کے لیے دیگر ویب سائٹس کے استعمال کرنے پرپابندی اورگوگل کوایپل جیسی کمپنیوں کو سالانہ اربوں ڈالر ادا کرنے سے روکنا شامل ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ گوگل آئی فونز جیسے آلات رکھنے والے صارفین کو ڈیفالٹ سرچ انجن رکھنے پر مجبورنہ کرسکے گا۔
عدالت میں منگل کو پیش کی جانے والی فائلنگ ایک ماہ تک جاری رہنے والے قانونی عمل میں پہلا قدم ہے جس کے ذریعے ایسے اقدامات سامنے آئیں گے جوایک ایسی کمپنی کو نئی شکل دے سکیں گے جو طویل عرصے سے آن لائن سرچ کا مترادف رہی ہے۔
فائلنگ میں لکھا گیا ہے کہ ’ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے گوگل نے سب سے زیادہ مقبول ڈسٹری بیوشن چینلز کو کنٹرول کیے رکھا ہے ، جس کی وجہ سے حریفوں کو صارفین کے لیے مقابلہ کرنے کے لیے بہت کم ترغیب ملتی ہے۔ ’ان نقصانات کا مکمل طور پر حل نکالنے کے لیے نہ صرف آج گوگل کے ڈسٹریبیوشن کے کنٹرول کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ گوگل کل کو بھی ڈسٹریبیوشن کو کنٹرول نہ کرسکے۔
امریکی ڈسٹرکٹ جج امیت مہتا نے اگست میں کہا تھا کہ گوگل کا سرچ انجن غیر قانونی طور پر اپنے سرچ انجن کے غلبے کا فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ مسابقت کو ختم کیا جا سکے اور جدت طرازی کو روکا جا سکے۔ انہوں نے اگلے موسم بہار میں مجوزہ حل پر ٹرائل کے لیے ایک ٹائم لائن کا خاکہ بھی پیش کیا ہے اور اگست 2025 تک فیصلہ جاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ پہلی بار ہے کہ عدالت میں دائر کی گئی دستاویزات میں حکومت نے اس بات کا کوئی اشارہ دیا ہے کہ وہ کس قسم کے حل پر عمل کرے گی، لیکن مہتا کے ذریعے دی گئی محتاط حکمت عملی کے تحت، حکومت آخر کار گو گل کے تقسیم جیسے حل پر عمل نہ کرنے کا انتخاب بھی کر سکتی ہے۔
گوگل کے ریگولیٹری افیئرز کے نائب صدر لی این ملہولینڈ نے فائلنگ کے جواب میں کہا کہ محکمہ انصاف پہلے ہی ان درخواستوں کا اشارہ دے رہا ہے جو اس معاملے میں مخصوص قانونی مسائل سے کئی زیادہ ہیں۔
گوگل پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ مہتا کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن ٹیک کمپنی کو ایسا کرنے سے پہلے کسی حل کو بھی حتمی شکل دینے تک انتظار کرنا ہوگا۔ کارنیل یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر جارج جو 1970 کی دہائی میں محکمہ انصاف کے اینٹی ٹرسٹ ڈویژن کے چیف اکانومسٹ رہ چکے ہیں،نے پیش گوئی کی ہے کہ اپیل کے عمل میں 5 سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
واشنگٹن میں ایک طویل ٹرائل کے دوران ، گوگل نے زیادہ تر ثبوت دیگر ٹیک کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے متعلق پیش کیے تھے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ گوگل صارفین کی ٹیکنالوجی پر ڈیفالٹ سرچ انجن ہے۔ مقدمے کی گواہی کے مطابق صرف 2021 میں گوگل نے ان ڈیفالٹ معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے 26 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے۔
نتیجتاً ، ممکنہ حل کے بارے میں زیادہ تر قیاس آرائیاں اس بات پر مرکوز ہیں کہ آیا گوگل کو اس طرح کے سودے کرنے سے روکا جائے گا۔ منگل کو دائر کی گئی فائلنگ میں وکلا نے تقسیم کے ان معاہدوں کو ’گوگل کے غیر قانونی طرز عمل سے نمٹنے کے لیے ابتدائی نقطہ‘ کے طور پر حوالہ دیا۔
اس مقصد کے لیے محکمہ نے کہا کہ وہ گوگل کو اپنے کروم براؤزر، اینڈروئیڈ آپریٹنگ سسٹم، مصنوعی ذہانت کی مصنوعات یا ایپ اسٹور جیسی مصنوعات سے روکنے کے لیے ساختی تبدیلیوں کے مطالبے پر بھی غور کر رہا ہے تاکہ اس کے سرچ بزنس کو فائدہ پہنچے۔
ملہولینڈ نے لکھا کہ ’ہم نے کروم اور اینڈروئیڈ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ’انہیں ختم کرنے سے ان کے کاروباری ماڈل تبدیل ہوجائیں گے، ڈیوائسز کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور ایپل کے آئی فون اور ایپ اسٹور کے ساتھ ان کے مضبوط مقابلے میں اینڈروئیڈ اور گوگل پلے کو نقصان پہنچے گا۔
حکومت کی جانب سے پیش کی گئی ایک اور تجویز میں کمپنیوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ صارفین کے سرچ سوالات کے مصنوعی ذہانت سے بھرپور جوابات فراہم کرتے وقت گوگل کی جانب سے اپنی معلومات استعمال نہ کرنے کا انتخاب کریں۔
پیر کو ایک وفاقی جج نے گوگل کو حکم دیا کہ وہ مارکیٹ میں غیر قانونی اجارہ داری برقرار رکھنے کی سزا کے طور پر اپنے اینڈروئیڈ ایپ اسٹور کو مسابقت کے لیے کھول دے اور ورجینیا میں ایک وفاقی جج اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا گوگل آن لائن ایڈورٹائزنگ ٹیکنالوجی میں غیر قانونی اجارہ داری رکھتا ہے یا نہیں۔