موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، جسٹس منصور علی شاہ
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ میں بینچز اختیار سے متعلق کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار کو تحریری جواب دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سوال پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کا ہے۔ بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نذر عباس کے دفاع میں کمیٹی کے فیصلے پیش کیے گئے تھے۔ اٹارنی جنرل منصوراعوان نے کہا کہ نذر عباس کا تحریری جواب آنے تک رجسٹرار کا مؤقف ان کا دفاع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اٹارنی جنرل نے عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے وہ 26ویں ترمیم کے خلاف درخواست گزاروں کے وکلا ہیں۔
عدالت نے خواجہ حارث اور احسن بھون کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ریگولر بینچ سن رہا تھا کیا کمیٹی اسے شفٹ کر سکتی ہے، یہ کیس آرٹیکل 191 اے کا ہے کچھ کیسز ٹیکس سے متعلق بھی تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کیس کا بیک گراؤنڈ بھی پڑھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار کے دفاع میں کہا کہ یہ سب 2 ججز کمیٹی کے فیصلے سے ہوا۔ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کہاں ہیں آج آئے ہوئے ہیں؟ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو جسٹس منصور علی شاہ نے ان سے استفسار کیا کہ آپ نے کیس کو کاز لسٹ سے کیوں ہٹایا؟ آپ کوشش کریں آج اپنا تحریری جواب جمع کروا دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیس کا تعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اختیارات سے ہے نا کہ 26ویں ترمیم سے، آپ چاہ رہے ہیں کہ پلڑا بھاری نا ہو۔ مقدمہ مقرر نہ کرنے سے معلوم نہیں نذر عباس کا کتنا تعلق ہے؟ نذر عباس صاحب آپ کے ساتھ بھی کچھ ہوگیا ہے؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اور کوئی معاونت کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں بطور پراسیکیوٹر پیش ہو سکتا ہوں، قانونی سوال پر عدالت کی معاونت 27 اے کے تحت کرسکتا ہوں۔ توہین عدالت کیس میں بطور اٹارنی جنرل میری پوزیشن مختلف ہے۔ توہین عدالت کیس میں عدالت کا بہت محدود اختیار سماعت ہے۔ جسے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا اس کا تحریری بیان جمع ہونا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ کریمنل اوریجنل اختیار سماعت کے تحت یہ معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت اب بینچ بنانے کا اختیار آئینی کمیٹی کو ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کیس کا 26ویں آئینی ترمیم سے کوئی لینا دینا نہیں اگر خود سے ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات ہے۔ عدالت نے نذر عباس کو کل تک تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ مسکرا رہے ہیں عدالتی معاون کے لیے کوئی نام تجویز کردیں۔ اٹارنی جنرل سے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میں کوئی نام تجویز نہیں کر رہا۔ ابھی کسٹم ایکٹ کا مرکزی کیس آپ کے سامنے نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کا ہے۔ بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نذر عباس کے دفاع میں کمیٹی کے فیصلے پیش کیے گئے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نذر عباس کا تحریری جواب آنے تک رجسٹرار کا مؤقف ان کا دفاع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ پشاور میں بھی اسی طرح بینچ تبدیل ہوا تھا پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک نوٹ لکھا تھا، سپریم کورٹ میں جو روسٹر ایک دفعہ بنتا ہے وہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
وکیل شاہد جمیل نے مزید کہا کہ یہاں ایک کیس کی سماعت ایک بینچ کرتا ہے درمیان میں بینچ تبدیل ہوتا ہے اور کبھی بینچ سے ایک معزز جج کو نکال دیا جاتا ہے۔ ایک کیس چل رہا ہو تو اس کو بینچ سے واپس نہیں لیا جا سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مطلب یہ کہ جب ایک کیس شروع ہو گیا تو اسکی واپسی نہیں؟ اس پر وکیل شاہد جمیل نے بتایا کہ جہاں سوال اٹھے گا وہ کیس لیا بھی جاسکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال اس صورت میں اٹھے گا اگر کیس بینچ کے سامنے نا ہو۔ وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ پہلے سارے کیسز سیکشن 2 کی کمیٹی کے پاس جائیں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تک 2 اے کی کمیٹی کی ایکسرسائز رہی ہے کہ کمیٹی ریگولر بینچز ہی بنائے گی۔ 2 اے میں کمیٹی بینچ تبدیل کر سکتی تھی اس صورت میں جب کیس کسی کورٹ میں نا ہو۔
وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ آئینی بینچ کو جوڈیشل کمیشن نے نامزد کرنا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سارے کیسز پہلے مرکزی کمیٹی میں جائیں گے۔ وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سارے کیسز پہلے آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھیجے جائیں، مطلب یہ اوور لیپنگ ہمشیہ رہے گی۔ یہ معاملہ فل کورٹ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے۔
عدالتی معاون منیر اے ملک نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دے دی۔ اس پر جسٹس منصور نے کہا کہ کیا ہم توہین عدالت کا کیس سنتے ہوئے فل کورٹ کا آرڈر کرسکتے ہیں؟ منیر اے ملک نے کہا کہ کمیٹی فیصلہ بطور دفاع پیش کیا گیا ہے، کمیٹی اختیار پر بالکل یہ عدالت فل کورٹ آرڈر کر سکتی ہے، آئینی بینچ سپریم کورٹ کی صرف ایک سیکشن ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آنے والے کیسز کو پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر کی کمیٹی کو ہی دیکھنا چاہیے۔ 3 رکنی کمیٹی کو طے کرنا چاہیے کون سے کیسز آئینی بینچ کو بھیجنا ہیں۔ میری رائے میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو انتظامی آرڈر سے ختم نہیں کرسکتی۔ کل جاری ہونے والی پریس ریلیز دیکھی ہے، کہا یہ گیا کہ پہلے کیس غلطی سے اس ریگولر بینچ میں لگ گیا تھا، اگر یہ غلطی تھی تب بھی اس پر اب جوڈیشل آرڈر ہو چکا، اب جوڈیشل آرڈر کو دوسرا جوڈیشل آرڈر ہی بدل سکتا ہے، یہ معاملہ اب عدلیہ کی آزادی سے جڑا ہے، معاملہ فل کورٹ سے ہمیشہ کے لیے حل ہو سکتا ہے۔
منیراے ملک کے دلائل مکمل ہونے پر عدالتی معاون حامد خان نے دلائل شروع کیے تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بینچز اختیارات سے متعلق کیس مقرر نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کل تک ملتوی کی جاتی ہے، دیگر عدالتی معاونین کو کل سنیں گے۔