6 ججوں کے خط کے بعد عدلیہ کتنی تبدیل ہوئی؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)26 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا حساس ادارے ان کے کام میں مداخلت کرتے ہیں لہٰذا سپریم جوڈیشل کونسل اس مداخلت کو روکنے کے لیے طریقہ کار وضع کرے۔
مذکورہ خط کے فوراً بعد اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ان 6 ججز سے ملاقات کی اور اس کے ان ججز کا وہ معاملہ سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے مقرر بھی کیا لیکن تاحال اس مقدمے کا کوئی فیصلہ تو نہیں ہوا البتہ اس کے نتائج ضرور برآمد ہوئے۔
گزشتہ ماہ 28 جنوری کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی بنیاد ایک خط بن گیا۔ گو کہ سپریم کورٹ میں تقسیم تو پہلے سے موجود تھی لیکن اس خط کے بعد تقسیم اور واضح ہو گئی اور کچھ ججز نے اپنے ریمارکس میں اس خط کے حوالے بھی دیے۔
سپریم کورٹ تو پورے ملک میں آئینی و قانونی اعتبار سے ایک اہم عدالت ہے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ وفاق سے متعلق مقدمات سماعت کے لیے اکثر اسی عدالت میں آتے ہیں۔ 6 ججز کے خط کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوسرے صوبوں سے آئے ججز انتظامی کمیٹیوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
سپریم ججز کے درمیان کشمکش
سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے فیصلوں کی وجہ سے یوں تو پورے ملک کے میڈیا کی ہیڈلائنز میں رہتی ہے لیکن سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور سے سپریم کورٹ نے کچھ ایسے مناظر دیکھے جو شاید اِس سے قبل نہیں دیکھے تھے جن میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے جج ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آئے اور سیاسی جماعتیں ایک کے مقابلے میں دوسرے جج کو سپورٹ کرتی نظر آئیں۔
28 جنوری کو سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل حافظ احسان کھوکھر نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججز کے درمیان یہ کشمکش ہمیشہ رہتی تھی، پہلے من پسند بینچز بنائے جاتے تھے اور کچھ ججز کو بینچز میں شامل نہیں کیا جاتا تھا، پھر ایک دوسرے کے خلاف خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور اب تو اس معاملے کی انتہا ہو گئی ہے کہ ساتھی ججز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا کہا جا رہا ہے۔
گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کے درمیان جو خطوط کا سلسلہ چلتا ہے اس کو روکنے کے لیے کونسلنگ جاری ہے اور جلد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔
اس سارے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ہمیں حکومت وقت فی الحال بالادست نظر آتی ہے کیونکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، مخصوص نشستیں،26 ویں آئینی ترمیم، ججز تعیناتیاں، ٹرانسفر کے ذریعے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جج تعیناتی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس ان تمام معاملات پر زبردست مزاحمت کے باوجود حکومتی مؤقف فی الوقت ہمیں کامیاب دکھائی دیتا ہے اور بظاہر عدلیہ کی جانب سے حکومت کو درپیش مسائل کو حل کر لیا گیا ہے۔
10 فروری کو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف آل پاکستان وکلا کا احتجاج بھی اس وقت بظاہر ناکام ہو گیا جب منقسم وکلا کمیونٹی کے ایک بڑے حصے نے اِس احتجاج میں شرکت نہیں کی۔
6ججز خط کے بعد سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں بہت کچھ بدلا۔ اس خط کے بعد اکتوبر 2024 میں 26 ویں آئینی ترمیم آئی جس کے تحت نہ صرف آئینی بینچز بنائے گئے بلکہ چیف جسٹس اور دیگر ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی بدل گیا۔
26 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں تبدیل ہونے والا جوڈیشل کمیشن اس وقت 2 صوبائی ہائیکورٹس کے اندر آئینی بینچوں کی تشکیل کر چکا ہے، 36 کے قریب نئے ججز تعینات کیے جا چکے ہیں جبکہ سپریم کورٹ میں 7 نئے ججز تعینات ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں انتظامی کمیٹیاں بھی تبدیل کی جا چکی ہیں
سپریم کورٹ انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 17 فروری کو سپریم کورٹ کی انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو کی جن میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک کو شامل نہیں کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں مشیر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ وہ ایک سال سے وہاں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک کو لا کلرک شپ پروگرام کمیٹی کی کمیٹی سے ہٹا دیا گیا۔
جسٹس مسرت ہلالی کو خیبرپختونخوا کی انسداد دہشتگردی عدالتوں کی نگراں جج مقرر کیا گیا ہے جبکہ جسٹس ملک شہزاد پنجاب، جسٹس ہاشم کاکڑ بلوچستان، جسٹس صلاح الدین پنہور سندھ اور جسٹس عامر فاروق اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالتوں کے نگراں جج مقرر کیے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ عملے کے یونیفارم کی کوالٹی چیک کرنے کے لیے قائم کمیٹی تحلیل کرتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے تمام کمیٹیوں اور تقرریوں کے الگ الگ نوٹیفیکیشن جاری کر دیے گئے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں آنے والی تبدیلیاں
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بذریعہ ٹرانسفر آنے والے ججز کے بعد 3 فروری کو انتظامی کمیٹی تبدیل کر دی گئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اسلام آباد ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین مقرر ہو گئے تھے جبکہ جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ تعیناتی کے بعد قائم مقام چیف جسٹس محمد سرفراز ڈوگر اس کمیٹی کے چیئرمین اور جسٹس خادم حسین سومرو انتظامی کمیٹی کے رکن ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی بھی تبدیل کر دی گئی۔ نئی ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی سینیئر پیونی جج جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ہے۔