آرڈیننس صرف ہنگامی حالات میں جاری کیا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے ضرورت سے زیادہ آرڈیننس کے نفاذ کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آرڈیننس صرف ہنگامی معاملات میں جاری کیا جا سکتا ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے کہی اور عدالت عظمیٰ نے آرڈیننس جاری کرنے کے طریقہ کار کی بھی وضاحت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کو گزشتہ سال جولائی میں آگاہ کیا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے جولائی 2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے 3 سالوں کے دوران کم از کم 54 صدارتی آرڈیننس جاری کیے تھے۔
ان میں سے کچھ آرڈیننس وفاقی حکومت کی معمول کی کاروائیوں کے لیے بھی جاری کیے گئے۔قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق حکومت کے پہلے پارلیمانی سال میں 7 اور دوسرے پارلیمانی سال میں 30 آرڈیننس جاری کیے گئے جبکہ موجودہ اور تیسرے پارلیمانی سال میں 16 سے زائد آرڈیننس جاری کیے جا چکے ہیں۔
انکم سپورٹ لیوی کے نفاذ کے خلاف 581 درخواستوں کا فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا کہ صدر اور صوبائی گورنر آرڈیننس جاری کرسکتے ہیں لیکن ان کے آرڈیننس جاری کرنے کے اختیارات آئین کے تحت محدود ہیں۔عدالت نے فیصلہ دیا کہ صدر صرف وفاقی قانون سازی سے متعلق کسی بھی معاملے کے لیے صرف اس صورت میں آرڈیننس جاری کر سکتا ہے کہ سینیٹ اور نہ ہی قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو اور ایسا صرف ان حالات میں کیا جاسکتا ہے جب کسی معاملے میں فوری کارروائی کرنا ضروری ہو۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بیان کردہ پیشگی شرائط میں سے کسی ایک کی بھی عدم موجودگی میں صدر اور گورنر آرڈیننس جاری نہیں کر سکتے ہیں، آرڈیننس صرف ہنگامی حالات میں جاری کیے جاسکتے ہیں کیونکہ آئین صرف اسی صورت میں اجازت دیتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے ہر لفظ اور اس میں بتائے گئے طریقہ کار پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے، ایسا کرنے سے بدگمانیاں اور بداعتمادی دور ہوتی ہے اور نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ وقت، پیسے اور محنت کے ضیاع سے بھی بچاتا ہے، جیسا کہ اس کیس میں دیکھا گیا ہے، تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس سے ان لوگوں کی تذلیل ہوتی ہے جن کے لیے یہ بنایا گیا۔بعد ازاں بینچ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواستوں کو خارج کردیا۔
اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) نے انکم سپورٹ لیوی ایکٹ 2013 کے نفاذ کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے ان ٹیکس دہندگان کے حق میں فیصلہ دیا تھا جن کے پاس 10 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے خالص منقولہ اثاثے ہیں۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ انکم سپورٹ لیوی ایکٹ 2013 کے ذریعے خالص قیمت پر 0.5 فیصد انکم سپورٹ لیوی کا نفاذ غیر آئینی ہے کیونکہ اس میں ٹیکس کی خصوصیت نہیں تھی اور یہ امتیازی تھا کیونکہ اس نے ایک ہی طبقے کے اندر غیر معقول درجہ بندی پیدا کی تھی۔
ٹیکس دہندگان کی ایک سیکنڈ کیٹگیری نے 2014 میں حکومت کی جانب سے منسوخ کیے جانے کے باوجود ایکٹ کے سیکشن 5 کے حوالے سے منظور کیے گئے نوٹسز اور اسیسمنٹ آرڈرز کو چیلنج کیا تھا۔
ایف بی آر کے وکیل نے سپریم کورٹ بینچ کو بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ایکٹ منی بل کے طور پر متعارف نہیں کرایا جا سکتا تھا اور غلط کہا کہ انکم سپورٹ لیوی ٹیکس نہیں ہے اور پھر اس غلط مفروضے کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ یہ ایکٹ غیر آئینی ہے۔
جواب جمع کروانے والے ٹیکس دہندگان نے کہا کہ یہ ایکٹ فنانس ایکٹ 2013 کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا حالانکہ اس میں منی بل کے اجزا نہیں تھے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 73 (2) میں بتایا گیا ہے، اس لیے اگر اسے قانون بنانا تھا تو اسے آئین کے آرٹیکل 70 میں بیان کردہ عام قانون سازی کے طریقہ کار کے مطابق عمل کرنا تھا، تاہم ایکٹ کو منی بل کے طور پر یا منی بل کے مطلوبہ جز کے طور پر پاس کرکے پاکستان کی سینیٹ کو نظرانداز کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ یہ ایکٹ غربت کے خاتمے کے اعلان کردہ مقصد کے تحت سماجی قانون سازی تھی، یہ اگرچہ ایک قابل قدر مقصد تھا لیکن اس سے ایکٹ منی بل کی تعریف میں نہیں شمار کیا جاسکتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ چونکہ یہ ایکٹ منی بل نہیں تھا اس لیے اسے آئین کے آرٹیکل 70 کے مطابق دونوں ایوانوں [قومی اسمبلی اور سینیٹ] سے منظور کیا جانا لازمی تھا۔