اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش سے احتجاجی طلبا پر کریک ڈاؤن کی تفصیلات طلب کرلیں

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے بنگلہ دیش کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ گزشتہ ہفتے مظاہرین پر ہونے والے تشدد کے بارے میں تفصیلی اطلاعات فراہم کرے تاکہ نفاذ قانون کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی ضوابط کے تابع لایا جا سکے . حکومت نے متاثرین کو تحفظ دینے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے حامی متعدد گروہوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات ہیں اور حکومت نے متاثرین کو تحفظ دینے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا .

عوامی اعتماد کی بحالی اور بات چیت کے لیے سازگار ماحول تشکیل دینے کی غرض سے نفاذ قانون کے اداروں کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین و ضوابط کے مطابق کام کرنا ہو گا . انٹرنیٹ بحال کرنے کا مطالبہ وولکر ترک نے بنگلہ دیش کی حکومت سے انٹرنیٹ بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جو گزشتہ جمعرات کو بند کر دیا گیا تھا . وولکر ترک کے مطابق ایسے اقدامات بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں اور ان سے اظہار، پرامن اجتماع، میل جول، نقل و حرکت، صحت اور تعلیم کے حقوق متاثر ہوتے ہیں . ان کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے نفاذ قانون کے اداروں کے افعال پر نظر رکھنا ممکن نہیں رہے گا اور انہیں غیرقانونی کارروائیوں پر کھلی چھوٹ ملنے کا خدشہ بڑھ جائے گا . سیاست دانوں سے درخواست ہائی کمشنر نے سیاست دانوں سے کہا ہے کہ وہ ایسے بیانات یا اقدامات سے پرہیز کریں جو تشدد کی ترغیب کے مترادف ہوں یا ان سے حکومتی اقدامات کے مخالفین پر مزید کریک ڈاؤن کا خطرہ ہو . پرتشدد احتجاج اور ہلاکتیں بنگلہ دیش میں گزشتہ کئی ہفتے تک یونیورسٹیوں کے طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں . اس سسٹم کے تحت ایک تہائی ملازمتیں 1971 میں پاکستان سے آزادی کے حصول کی جنگ لڑنے والے لوگوں کی اولادوں کو دی جاتی تھیں . 2018 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ نظام ختم کر دیا گیا تھا لیکن رواں مہینے کے آغاز میں اسے دوبارہ بحال کیا گیا . طلبہ احتجاج میں شدت طلبہ کے احتجاج نے بتدریج پرتشدد صورت اختیار کر لی جس کے بعد حکام نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تھی جو تاحال بحال نہیں ہوئی جبکہ یونیورسٹیوں کو بھی نامعلوم مدت کے لیے بند رکھا گیا ہے . بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کا فیصلہ چند روز قبل بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے مخصوص کوٹے میں 13 فیصد کمی کے حق میں فیصلہ دیا جسے حکومت کی جانب سے تسلیم کر لیا گیا ہے اور اب حالات قدرے معمول پر آ چکے ہیں . انسانی حقوق کے ماہرین کو تشویش انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی بنگلہ دیش کی حکومت سے احتجاج کرنے والوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن فوری روکنے کے لیے کہا ہے . ان کا کہنا ہے کہ احتجاج کے رہنماؤں، سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں پر حملے، انہیں دھمکیاں دینا اور حکام سمیت حکومت کے حامی گروہوں کی جانب سے ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں انتہائی پریشان کن ہیں . تشدد کی تحقیقات کا مطالبہ اطلاعات کے مطابق مظاہروں میں پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 170 افراد ہلاک ہوئے جبکہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے . ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے واقعات کی بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق فوری، مفصل، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں . انہوں نے بنگلہ دیش کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس ضمن میں احتساب کے عمل کو قابل اعتبار بنائیں جبکہ اقوام متحدہ اس معاملے میں اسے مدد دینے کو تیار ہے . پرامن مظاہرین کو فوری رہا کریں انہوں نے حکام سےکہا ہے کہ وہ تمام پرامن مظاہرین کو فوری رہا کریں اور پرتشدد کارروائیوں کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کو منصفانہ قانونی کارروائی کی ضمانت مہیا کریں . عدالتی فیصلے کی ستائش ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک مکمل رسائی بحال کرے اور مقامی و غیرملکی ذرائع ابلاغ کو حملوں، دھمکیوں یا دباؤ کے خوف کے بغیر ملکی صورتحال کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کی اجازت دے . ریاست لوگوں کا اطلاعات کے حصول کا حق برقرار رکھے اور گرفتار لوگوں، جبراً گمشدہ کیے جانے والوں، ہلاک ہونے والوں یا حقوق کی دیگر پامالیوں کا سامنا کرنے والوں کے بارے میں شفاف طور سے معلومات فراہم کی جائیں . . .

متعلقہ خبریں