بے دریغ ساحل و سائل کو لوٹنے کیساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالیاں بھی عروج پر ہیں . ترجمان نے کہا کہ بلوچ قوم کی یہ تاریخ رہی ہے کہ بحیثیت قوم ایک کمزور پوزیشن کے باوجود نہ اپنی جغرافیائی حدود پر کمپرومائز کیا ہے اور نہ ہی اپنی سر زمین سے دستبردار ہوئے ہیں، ہر وقت کسی بھی طاقت ور سے اپنی قومی حقوق اور سرزمین کیلئے پنجہ آزمائی کرتے آ رہے ہیں . اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ وہ بلوچ کو بحیثیت قوم ڈرا کر، دھمکا کر ان کو دبایا جاسکتا ہے، یا بلوچ کو ان کی جدوجہد اور سرزمین سے دستبردار کرکے چند ٹکڑوں پر خوش کیا جائے گا، تو یہ ریاست کی بھول ہے . ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق کسی بھی خطے میں کسی قوم اور کسی بھی فرد کو اس کے بنیادی انسانی، سماجی اور سیاسی حقوق ملنے چاہیے اگر کوئی بھی ریاست یا فرد کسی شخص یا قوم کے بنیادی حقوق کو سلب کرتا ہے یا مسخ کرتا ہے تو اس قوم یا فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے آواز اٹھائے، لیکن ریاست پاکستان میں ہمیشہ الٹی گنگا بہتی ہے، یہاں اس خطے میں بسنے والے تمام اقوام کے انسانی، سماجی اور سیاسی حقوق سلب کیے گئے ہیں اور اگر کوئی بھی شخص یا ادارہ ان حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرے یا ان کیلئے آواز اٹھائے تو ریاست اور اس کے اداروں کا وتیرہ رہا ہے کہ وہ لوگوں کو ڈراتے ہیں، دھمکا کر غداری کا الزام لگا کر قتل کیا جاتا ہے . ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ ”بلوچ راجی مچی“ کے انعقاد کی تیاریوں کے دوران ریاست اور اس کے ادارے اپنا پرانا وتیرہ اپنا کر بلوچ سیاسی کارکناں کو ہراساں کرکے ان پر بوگس ایف آئی آر کرکے، جبری طور پر لاپتہ کرکے سنگین انسانی حقوق کے پامالیوں کے مرتکب ہورہے ہیں لیکن ریاستی اداروں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اب بلوچ قومی جدوجہد اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب بلوچ قوم کو ڈرانے اور دھمکانے سے اپنے قومی حقوق سے دستبردار نہیں کیا جاسکتا . . .
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچ راجی مچی کے انعقاد کی تیاریوں کے دوران سیاسی کارکناں کو ہراساں کرنا، بوگس ایف آئی آر، ماروائے آئین گرفتاریوں، اور جبری طور پرگمشدہ کرنا ریاستی بوکھلاہٹ ہے . نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بلوچستان کو روز اول سے ایک کالونی کے طور پر چلا رہی ہے، اور بلوچوں کو ہمیشہ تیسرے درجے کے غلام شہری سمجھ کر ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے لیکن پچھلے پچیس سال سے جب بلوچوں کی جدوجہد ایک نئے فیز میں داخل ہونے کے بعد ریاست اور اس سے وابستہ ادارے آخری حد تک اپنے جبر اور گھناﺅنی حرکات دہرا رہے ہیں .
متعلقہ خبریں