روسی صدر کے پیغمبر اسلامﷺ کی توہین کے خلاف ریمارکس پر مولانا فضل الرحمان کا رد عمل

پشاور (قدرت روزنامہ) روسی صدر کے پیغمبر اسلامﷺ کی توہین کے خلاف ریمارکس پر مولانا فضل الرحمان کا رد عمل . ولادی میر پیوٹن کا بیان عالم اسلام کے اس مؤقف کی تائید ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ کی حرمت و تقدس آفاقی ہے .

تفصیلات کے مطابق روسی صدر کی جانب سے پیغمبر اسلامﷺ کی توہین کے خلاف ریمارکس پر مولانا فضل الرحمان نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے . سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر جاری پیغام میں سربراہ جے یو آئی کا کہنا ہے کہ ’’روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کا یہ بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی اظہارِ رائے کی آزادی یا فن کا اظہار نہیں ہے، یہ عالم اسلام کے اس مؤقف کی تائید ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ کی حرمت و تقدس آفاقی ہے‘‘ انہوں نے لکھا کہ ہم اس بیان پر روسی صدر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں . واضح رہے کہ روسی صدر کی جانب سے حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو دیا گیا جواب دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے اس حساس معاملے پر ان کا نقطہ نظر سمجھنے پر روسی صدر کا شکریہ ادا کیا جا رہا ہے . برطانوی خبر رساں ادارے انڈیپینڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں روسی صدر ولادی میر پوٹن نے حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں اور پھر اس شرمناک عمل کو اظہار رائے کی آزادی کہنے والوں پر تنقید کی . روسی صدر نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پیغمبر محمدﷺ کی توہین مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے اور یہ ان لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے جو اسلام کے ماننے والے ہیں . انہوں نے پیرس میں چارلی ہیبڈو میگزین کے ادارتی دفتر پر ہونے والے حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا ایسی باتیں انتہا پسندانہ سوچ میں اضافہ کرتی ہیں . مذہب مخالفت اقدامات انتہا پسندانہ کارروائیوں کو جنم دیتے ہیں، فنکارانہ آزادی ‏ہونی چاہیے لیکن اس کی اپنی حدود ہیں . اس دوران روسی صدر نے ان ویب سائٹس پر بھی تنقید کی جن پر دوسری عالمی جنگ میں مرنے والے روسیوں اور نازیوں کی تصاویر پوسٹ کی جاتی ہیں . ولادی میر پوٹن کا کہنا تھا کہ ایسی حرکات انتہاپسندی میں اضافہ کرتی ہیں . روسی صدر نے مزید کہا کہ ان کا ملک روس ایک کثیر النسلی اور کثیرالمذہبی ملک کے طور پر ابھرا ہے، اس لیے روسی ایک دوسرے کی روایات کا احترام کرتے ہیں، لیکن کئی ممالک میں ایسا احترام کم ہی پایا جاتا ہے . . .

متعلقہ خبریں