اسلام آباد

انتخابات میں حصہ نہ لینے والی سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں فُل کورٹ بینچ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کررہا ہے۔
الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے کیس میں جواب جمع کرا دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے جواب کے مطابق سنی اتحاد کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔ کنول شوذب نے بھی مخصوص نشستوں کے کیس سے متعلق اضافی دستاویزات جمع کرا دی ہیں۔ کنول شوزب کی جانب سے اضافی دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ پر لانے کی استدعا کی گئی ہے۔ گزشتہ سماعت پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے تھے۔
ایسی سیاسی جماعت جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑ کر آئی ہیں ان کو عوام نے ووٹ دیا ہے۔ لیکن ایسی سیاسی جماعت جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟
فیصل صدیقی کی جانب سے آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 106 کا حوالہ
فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئینی شقوں کے کچھ بنیادی پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں گی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست پر ہوں گی۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ ہر جماعت کو اپنی جنرل نشستوں کے حساب سے ہی یہ نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ملیں گی۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے دلائل جاری
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اعلیٰ عدلیہ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کو نیچرل حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا ہے۔ آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا ہے۔

متعلقہ خبریں