آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مالی سال 2022-23 کے دوران فنانس ڈویژن نے اعزازیے کی ادائیگی کی مد میں 24کروڑ ایک لاکھ 67 ہزار 79 روپے خرچ کیے اور ہر ملازم کو اس کی چار بنیادی تنخواہوں کے مساوی پیسے بانٹے گئے ہیں، رپورٹ میں یہ رقم واپس لینے کی سفارش کی گئی ہے . رپورٹ کے مطابق، اعزازیہ کا مطلب ایک سرکاری ملازم کو خصوصی کام کے معاوضے کے طور پر دی جانے والی متواتر یا غیر متواتر ادائیگی ہے تاہم، کوئی بھی کام جو سرکاری ملازم کے عام فرائض کے دائرے میں آتا ہے، اسے خصوصی کام نہیں سمجھا جا سکتا . فنانس ڈویژن کے آڈٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈویژن نے مالی سال 2022-23 کے دوران اعزازیہ کی ادائیگی کی مد میں 24 کروڑ ایک لاکھ 67ہزار 79روپے خرچ کیے . مزید مشاہدات یہ ہیں: i) کابینہ کی منظور شدہ پالیسی کے بغیر چار بنیادی تنخواہوں کے مساوی اعزازیہ دینا قواعد کی خلاف ورزی ہے . ii) یہ اعزازیہ کراسڈ چیک یا پھر پے سلپ میں دینے کی بجائے ڈی ڈی او وینڈر نمبر 30005932 کے ذریعے دیا گیا تھا . iii) اعزازیہ کو تنخواہوں میں شامل نہیں کیا گیا تھا یعنی ملازمین کی سیلری سلپس کے ذریعے ادائیگی نہیں کی گئی جس کی وجہ یہ تھی کہ ٹیکس سلیب کم ہو جائے اور انکم ٹیکس ادا نہ کرنا پڑے . رپورٹ میں اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ کابینہ کی منظور شدہ پالیسی کے بغیر اعزازیہ دینا نہ صرف انتظامیہ کی سنگین کوتاہی ہے بلکہ وزیر اعظم کی ہدایات اور فنانشل مینجمنٹ اور پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کے طے شدہ اختیارات خلاف ورزی ہے . رپورٹ کے مطابق، فنانس ڈویژن نے وضاحت کی کہ مالی سال 2022-23 کے دوران، تین (03) مواقع پر فنانس ڈویژن کے ملازمین کو 24کروڑ ایک لاکھ 67ہزار 79 روپے کا اعزازیہ دیا گیا، جس کی تفصیل درج ذیل ہے: ۱) اگست 2022 میں پے سلپ کے ذریعے 220,860 روپے کی رقم (فنانس ڈویژن کے باقی ماندہ ملازمین) ۲) مئی 2023 کے مہینے میں 947,161 روپے کی رقم پے سلپ کے ذریعے (سبکدوش ہونے والے فنانس سیکرٹری کی طرف سے دی گئی) ۳) 238,857,919 روپے کی رقم (4 ماہ کی تک کی بنیادی تنخواہ کے مساوی بجٹ اعزازیہ) وزیر خزانہ نے بحیثیت چیئرمین ای سی سی خدمات کے اعتراف میں ادائیگی کی ہدایت کی . ای سی سی کی جانب سے مورخہ یکم جولائی 1996ء کو کیے گئے فیصلے کے تحت گریڈ 21اور 22کے افسر کو اعزازیہ دینے کیلئے خصوصی منظوری حاصل کرنا ہوتی ہے جبکہ گریڈ ایک تا 20کو اعزازیہ دینے کی اجازت ہے، اس مقصد کیلئے وزیر خزانہ سے بطور چیئرمین ای سی سی منظوری لی گئی تھی . فنانس ڈویژن نے مزید کہا ہے کہ فنانشل مینجمنٹ اینڈ پاورز آف پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر ریگولیشن، 2021 کے ذریعے سیریل نمبر 63 مقررہ پالیسی کے مطابق اعزازیہ کی ادائیگی کی اجازت دیتا ہے . کابینہ نے 31.05.2018 کے اپنے فیصلے کے ذریعے ہدایت کی کہ اعزازیہ کی گرانٹ کیلئے نئی پالیسی منظوری کیلئے نو منتخب حکومت کو پیش کی جائے . وزیراعظم نے 16.04.2020 کو فنانس ڈویژن کو کابینہ کے سامنے اعزازیہ سے متعلق پالیسی پیش کرنے کی بھی ہدایت کی . ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے، فنانس ڈویژن نے ای سی سی کے سامنے پالیسی پیش کی، جس پر کمیٹی نے 03.06.2022 کے اجلاس میں غور / منظور کیا تھا، پے رول سسٹم ہر مہینے کی 21 تاریخ کو چلتا ہے جبکہ بجٹ اعزازیہ عموماً ہر مالی سال کے جون کے آخری ہفتے میں منظور کیا جاتا ہے، اے جی پی آر کے پے رول سسٹم کے ذریعے اعزازیہ حاصل کرنا ممکن نہیں لہذااے جی پی آر نے مالی سال کے آخری دنوں میں ڈی ڈی او کے ذریعے نقد ادائیگی کی منظوری دی . رپورٹ کے مطابق بجٹ اعزازیہ سے 10 فیصد تک ٹیکس منہا کیا گیا ہے تاہم، آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کا جواب ناقابل قبول ہے کیونکہ اعزازیہ کابینہ سے پالیسی کی منظوری کے بغیر ادا کیا گیا تھا . مزید برآں، ای سی سی نے اپنے فیصلے میں مخصوص مدت کیلئے اعزازیہ منظور کیا تھا کیونکہ فیصلے میں مستقبل کی ادائیگیوں کا کوئی ذکر یا ہدایات نہیں تھا . ای سی سی کے کام کاج میں اعزازیے دینے کا مینڈیٹ شامل نہیں، رپورٹ میں وزیراعظم سے سفارش کی گئی ہے کہ جو اضافی رقم ادا کی گئی ہے وہ واپس لی جائے . . .
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)ملک کے سرکاری شعبہ جات کے مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنانے کی ذمہ دار وزارت خزانہ نے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور کابینہ کی جانب سے پالیسی منظور کیے بغیر اپنے ملازمین میں 24 کروڑ روپے بطور اعزازیہ بانٹ دیے .
زخموں پر نمک پاشی کے مترادف یہ اعزازیہ تنخواہوں میں شامل نہیں کیا گیا تاکہ انکم ٹیکس نہ دینا پڑے .
متعلقہ خبریں