آئی ایم ایف کا قرض پروگرام پر مکمل عملدرآمد اور ٹیکس نیٹ وسیع کرنے پر زور


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 37 ماہ کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) قرض پروگرام کے 7 ارب ڈالر کے نئے بیل آؤٹ پیکج پر ’مکمل عملدرآمد‘ کے ساتھ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے پر زور دیا ہے۔
آئی ایم ایف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو منظور شدہ پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کردی گئی ہے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹرز نےخصوصاً اضافی مالی اعانت حاصل کرنے اور مارکیٹ تک رسائی کو بحال کرنے کے لیے صلاحیت میں اضافے اور ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ قریبی تعاون کی مدد کے ساتھ پروگرام پر مکمل طور پر عمل درآمد کی اہمیت پر زور دیا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹرز نے منصفانہ ٹیکس نظام کی جانب اٹھائے گئے اقدامات کا خیر مقدم کیا اور ٹیکس بیس کو وسیع کرنے اور ٹیکس منیجمنٹ مؤثر کرکے اضافی محصولات جمع کرنے کی کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔
آئی ایم ایف بورڈ نے کہا کہ نئے پروگرام کو میکرو اکنامک استحکام کو مستحکم کرنے، چیلنجوں سے نمٹنے اور جامع ترقی کے حالات پیدا کرنے اور حکام کی جاری کوششوں کی حمایت کے لیے ٹھوس پالیسیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کے ترقیاتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے مسلسل مضبوط مالی معاونت بھی اس پروگرام کے مقاصد کے حصول کے لیے اہم ہوگی۔
ایگزیکٹو بورڈ نے تسلیم کیا کہ ملک نے 24-2023 اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے (ایس بی اے) کے تحت مستقل پالیسی کے نفاذ کے ساتھ معاشی استحکام کی بحالی کے لئے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ نئے ای ایف ایف پروگرام کے تحت اہم ترجیحات میں (i) پالیسی سازی کی ساکھ کی بحالی اور مضبوط میکرو پالیسیوں کی پائیداری اور ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کے ذریعے میکرو اکنامک استحکام، (ii) مسابقت بہتر بنانے اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے اصلاحات کو آگے بڑھانا، (iii) سرکاری ملکیتی اداروں میں اصلاحات اور (iv) کلائمٹ ریزیلینس شامل ہیں۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ مالی سال 2024 میں شرح نمو میں 2.4 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ افراط زر میں نمایاں کمی آئی ہے، بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ اور زرمبادلہ کی مارکیٹ کے پرسکون حالات کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوئے ہیں، اسی طرح مہنگائی میں کمی اور مستحکم ملکی اور بیرونی حالات کی عکاسی کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی جون سے اب تک پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر 450 بیسس پوائنٹس کی کمی کی ہے۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ مشکل کاروباری ماحول، کمزور گورننس اور ریاست کا کردار سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ہے جو دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے جبکہ ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے جو ٹیکس کی شفافیت، مالی استحکام اور پاکستان کی بڑی سماجی اور ترقیاتی اخراجات کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ مربوط ایڈجسٹمنٹ اور اصلاحات کی کوششوں کے بغیر پاکستان دیگر ممالک سے مزید پیچھے رہ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ 1958 سے 2024 تک پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ 24ویں قرض پروگرام کے لیے رواں برس جولائی میں معاہدہ ہوا تھا، جس میں غیر مقبول اصلاحات اور ٹیکس بیس کو وسیع کرنا بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے جولائی میں قرض کا معاہدہ طے ہونے کے بعد کہا تھا کہ اس پروگرام کو آخری پروگرام سمجھا جانا چاہیے۔