اسلام آباد

علی امین، بشریٰ بی بی ہمیں اکیلا چھوڑ کر فرار ہوگئے، پی ٹی آئی کارکن پھٹ پڑے


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے ’ڈی چوک‘ کی جانب مارچ میں گرینڈ آپریشن کے دوران قائدین کے اچانک غائب ہونے پر کارکنان سخت ناراض دیکھائی دے رہے ہیں، ان کا قائدین کے غائب ہونے کا خدشہ بھی سچ ثابت ہوا۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان ’ڈی چوک‘ میں احتجاج اور دھرنے کو ختم کرنے اور کارکنان کو چھوڑ کر فرار ہونے پر قائدین پر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہ عمران خان کے ساتھ بے وفائی ہے
کارکنوں کے مطابق یہ عمران خان کے ساتھ بے وفائی ہے، پشاور سے ’ڈی چوک‘ پہنچنے والے پشاور کے کارکن امجد خان نے بتایا کہ کارکنان نے پشاور سے اسلام آباد علی امین گنڈاپور کی گاڑی کے ساتھ سفر کیا، انہیں کہیں جانے نہیں دیا لیکن جب مارچ کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع ہوا تو علی امین گنڈاپور کسی کو نظر ہی نہیں آئے۔
وزیر اعلیٰ بشریٰ بی بی کو لے کر مانسہرہ روانہ ہو گئے
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور سابق خاتون اوّل اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اسلام آباد مارچ میں شریک اور ایک ساتھ کنٹینر پر موجود تھے، کارکنان نے امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی کارروائی سے پہلے ان کی گاڑی کو نکلنے سے روک دیا تھا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کارکنان گاڑی پر چڑھتے ہیں اور علی امین گنڈا پور سے گاڑی سے نکل کر مارچ کی قیادت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اسلام آباد ’فائنل مارچ‘ کے لیے پشاور سے روانگی کے وقت سے کارکنان اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ علی امین گنڈا پور مشکل وقت میں انہیں تنہا چھوڑ کر فرار ہو سکتے ہیں تاہم کارکنان کا خیال تھا کہ بشریٰ بی بی ثابت قدم رہیں گی۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بتایا کہ ’ڈی چوک‘ میں ان کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تو ہر کوئی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا جبکہ بعض کارکنان شیلنگ کا مقابلہ بھی کرتے رہے اور علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کے لیے فکرمند بھی رہے، لیکن پھر وہی ہوا کہ اچانک دونوں غائب ہو گئے۔
کارکنوں کے مطابق علی امین گنڈا پور بشریٰ بی بی کو لے کر اچانک نکل گئے اور سرکاری پروٹوکول میں مارگلہ ہل سے بحفاظت خیبر پختونخوا کی حدود میں داخل ہو گئے جہاں ان کی گرفتاری کا ڈر ختم ہوا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ انہوں نے رات مانسہرہ میں سرکٹ ہاؤس پہنچ کر گزاری، عمر ایوب بھی ان کے ہمراہ تھے لیکن کارکن انہیں اسلام آباد میں تلاش کرتے رہے ۔
قائدین سب سے پہلے فرار ہوئے
مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے کارکن افنان خان (فرضی نام) جو ’ڈی چوک‘ میں پہنچنے والے کارکنوں میں شامل تھے، کا کہنا ہے کہ رات کے وقت پہلے بجلی بند کر دی گئی اور اندھیرے میں شیلنگ شروع ہو گئی اور سیکیورٹی اہلکاروں نے لاٹھی چارچ بھی شروع کر دیا،فائرنگ بھی ہو رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس مشکل وقت میں بھی کارکن اپنی جگہ پر ڈٹے رہے اور انہیں علی امین گنڈا پور اور دیگر قائدین کی فکر بھی لاحق رہی، لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ تو پہلے سے ہی غائب ہو گئے ہیں۔
کارکنوں کی بے وفائی نے سب کچھ مٹی میں ملا دیا
انہوں نے کہا کہ ایک جانب کارکن علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کے لیے پریشان تھے تو دوسری جانب وہ اس مشکل وقت میں کارکنوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔’ہم تو حقیقی آزادی کے لیے نکلے تھے، جانیں بھی قربان کیں، لیکن قائدین کی بے وفائی نے سب کچھ مٹی میں ملا دیا اور ناکام لوٹ گئے‘۔
سب کو معلوم ہے، پھولوں کے ہار نہیں پہنائے جائیں گے
افنان خان نے مؤقف اختیار کیا کہ سب کو پتا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت میں اسلام آباد دھرنے میں جانے کا مطلب کیا ہے؟ کہ ہمیں وہاں کوئی پھولوں کے ہار نہیں پہنائے جائیں گے، اس طرح کے حالات کا سب کو اندازہ تھا۔ ’جانے سے پہلے بڑے بڑے دعوے کیے جا رہے تھے کہ ہر قربانی دیں گے، جب وقت آیا تو یہ لوگ بھاگ گئے اور ساتھ آنے والے کارکنوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا‘۔
انہوں نے کہا کہ قائدین نے کارکنان کا حوصلہ پست کر دیا۔ ’اب ہمیں کسی پر بھی بھروسا نہیں رہا۔ کوئی بھی عمران خان کا وفادار نہیں ہے، ہمیں حیرانی ہے کہ بشریٰ بی بی نے بھی مشکل وقت میں علی امین گنڈاپور کو رکنے کے لیے نہیں کہا‘۔
پی ٹی آئی میں قیادت کا فقدان
پی ٹی آئی کے ایک اور رکن امجد خان نے بتایا کہ یہاں کے لوگ عمران خان سے محبت کرتے ہیں اور وہ یہاں پشاور سے انہی کی رہائی کی خاطر نکلے تھے۔
امجد خان نے بتایا کہ کارکنان کو موجودہ پارٹی قیادت پر بھروسا نہیں رہا، اس بار ’فائنل کال‘عمران خان نے دی تھی اور ان کی کال پر ورکرز نکلے تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ قیادت ڈر جائے گی اور ساتھ نہیں دے گی، کارکنوں کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔
پارٹی کارکن افنان خان نے مزید بتایا کہ انہوں نے قائدین کو دھرنے میں نہیں دیکھا، فرنٹ پر تو کارکنان ہی تھے۔ قائدین تو کہیں بھی نظر نہیں آئے۔
مرکزی چیئرمین گوہر خان، پنجاب کے صدر حماد اظہر، بیرسٹر سیف، سلمان اکرم راجا اور دیگر قائدین غائب رہے اور ان کا کردار مشکوک ہو گیا ہے۔ ‘ہم ڈی چوک پہنچ گئے تھے قائدین بھی آتے اور وہاں پرامن دھرنا دیتے، لیکن رہنما غائب ہو گئے، کارکنان نے جان دے دی اور ناکام واپس آ گئے‘۔
مرکزی قائدین کیوں غائب رہے، شوکت یوسفزئی نے سوال اٹھا دیا
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے دھرنے کے حوالے سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے مرکزی قیادت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
شوکت یوسفزئی نے پرامن دھرنے کے دوران کارروائی کی مذمت کی اور اسے ظلم قرار دیا۔ ساتھ ہی پارٹی قیادت کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور پر پارٹی اور کارکنان کا دباؤ تھا اور انہیں قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے کے دوران پنجاب قیادت مکمل طور پر غائب رہی وہ تو 10 بندے نہیں لا سکے، بیر سٹر گوہر خان کہاں تھے وہ کیوں سامنے نہیں آئے، سلمان اکرم راجا اور دیگر قائدین بھی غائب رہے۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ جب عمران خان سنگجانی پر راضی تھے تو کون ’ڈی چوک‘ جانے پر بضد تھا، بشریٰ بی بی کے پاس تو پارٹی کا کوئی عہدہ بھی نہیں ہے۔
لاپتا کارکنوں کی تلاش جاری ہے، عاطف خان
پی ٹی آئی کے ایم این اے عاطف خان میڈیا کو بتایا کہ وہ خود اسلام آباد میں ہیں اور پارٹی کارکنوں کا پتہ لگا رہے ہیں۔ ہمارے کتنے ورکرز زخمی ہیں اور کتنے مارے گئے ہیں، کچھ پتا نہیں ہے۔ رات گئے لائٹس بند ہونے کے بعد شدید فائرنگ کی گئی۔
انہوں نے کہا فائرنگ کے بعد سب منتشر ہوئے اور جان بچانے کے لیے پناہ لی، ڈاکٹرز اور دیگر متعلقہ افراد سے ورکرز کے حوالے سے رابطے میں ہیں۔

متعلقہ خبریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *