فوجی جوانوں کی جانب سے تسلی دی گئی کہ احتجاج آپ کا قانونی حق ہے، مراد سعید
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف کے روپوش رہنما مراد سعید کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 10 گھنٹوں سے اسلام آباد میں احتجاج کرنے والی اپنی ٹیموں اور گراؤنڈ پر موجود ساتھیوں کی خبر لینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بیشتر سے ان کا رابطہ نہیں ہو پارہا۔
سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر اپنے پیغام میں مراد سعید نے بتایا کہ کئی ساتھیوں سے ابھی تک رابطہ نہیں ہو پارہا نہ دیگر کو ان کی کوئی خیر خبر ہے، کون زندہ ہے، کون زخمی، کون گرفتار کوئی اتاپتا نہیں۔
مراد سعید نے کہا کہ جن سے رابطہ ہوا ان میں سے بیشتر شاک میں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کی بڑی تعداد کے ڈی چوک پہنچنے پر فوجی جوانوں کی جانب سے انہیں تسلی دی گئی تھی کہ احتجاج آپ کا قانونی حق ہے اور آپ پر امن طور پر وہاں بیٹھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ معاملات تبدیل ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا نیتوں کا فتور ظاہر ہوتا گیا اور قریب کی بلڈنگز سے اسنائپرز پکڑے گئے جبکہ فرنٹ پر موجود ٹیموں کو لیڈ کرنے والے افراد (جن میں آئی ایس ایف یوتھ کے نوجوانوں کے علاوہ ایم پی ایز، ایم این ایز بھی شامل تھے) سے درخواست کی گئی کہ اپنے اپنے کارکنان کو لے کر پیچھے آجائیں۔
پرامن اور نہتے لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج کو آئے تھے‘
مراد سعید نے بتایا کہ پوری دنیا کی سامنے ہے کہ یہ سب پر امن لوگ تھے اور نہتے ہی اپنی جان ہتھیلی پر رکھے آگ کا دریا پار کرکے وہاں تک آئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اندھیرا ہوتے ہی علاقے کی تمام لائٹس بند کردی گئیں اور کچھ وقت بعد ڈی چوک کے قریب عمارتوں سے فائر کھول دیے گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں پہلے ہی خدشہ تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کو گرفتار کرنے کی کوشش ہوگی لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بھی اندیشہ تھا کہ انہیں وہیں نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایس ایف اور یوتھ کے جوان بی بی کی گاڑی کو حفاظتی تحویل میں لینے کے لیے پلٹے، گراؤنڈ پر موجود کارکن اندھیرے میں گولیوں کو ربڑ بلٹس سمجھ کر اپنی جگہ کھڑے رہے اور کئی منٹ تک گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے ڈٹے رہے یہاں تک کہ ایک ایک کرکے اپنے ساتھیوں کو گرتے دیکھا تو اصل حقیقت کا ادراک ہوا۔
ڈی چوک پر فائرنگ کے وقت کم ازکم 10 ہزار افراد تھے‘
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ جتنے لوگ وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے انہیں آگے جاکر گھیر لیا گیا تاہم اس وقت تک ان میں سے بیشتر کے کوائف نامعلوم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈی چوک پر فائرنگ کے وقت محتاط اندازے کے مطابق کم از کم 10 ہزار افراد موجود تھے اور وہ کوئی لاوارث نہیں تھے ہمارے ہاتھوں پر پارٹی میں شمولیت کرنے والے اور ہماری آنکھوں کے سامنے بڑے ہونے والے نوجوان تھے۔
ان کا کہنا تھا وہ ہمارے بے لوث کارکن تھے جو ایک اچھے مستقبل کی امید لے کر نکلے تھے لیکن یزید کے پیروکاروں نے بے دردی سے ان بے گناہوں کا خون بہایا تاہم ان کا خون کا رائیگاں نہیں جائے گا۔